ایک آدمی نے اپنی جوان بیٹی اور بیوی کو گھر سے نکال دیا اور پھر وہ

امجد صاحب نے ایک چھوٹی سی دکان سے بزنس شروع کیا تھا ۔ شہروں میں امجد بڑی مارکیٹس بن گئیں ۔ حال ہی میں انہوں نے لندن میں بھی دو سٹور شروع کیے ۔ امجد صاحب کی کوئی ادا اللہ کو پسند تھی ۔ جو اللہ ان کو نوازتا ہی جا رہا تھا ۔ مگر امجد صاحب میں ایک خامی گرا تھی کہ وہ غریب لوگوں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے بلکہ بڑے اور پھر ملک کے با ب کی بڑیتکبر سے یہ کہتے تھے کہ یہ غریب لوگ گنہگار ہیں اس لئے اللہ نے ان کو مفلس رکھا ہے ۔ یہ مفلسی ان کے گناہوں کی سزا ہے ۔
امجد صاحب کی شادی اپنی خالہ کی بیٹی جین سے ہوئی تھی ۔ ہے تا کی جبین والدین کی اکلوتی اولاد تھی اور فقط ایک سال کی بمشکل تھی , جب یتیم ہو گئی ۔ جبین کی ماں نے اپنی بڑی بہن یعنی امجد کی ماں اور دوسرے لوگوں کی طرف سے ملنے والے صدقہخیرات کے پیوں سے جبین کی پرورش کی تھی ۔ جبین کی ماں کو ٹی بی ہو گئی تھی ۔ اور پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنا ر نہ علاج نہیں کروایا ۔ اور خون تھوکتے ہوۓ انتہائی تکلیف دہ حالت میں مر گئی تھی ۔ مگر مرنے سے پہلے ہاتھ جوڑ کر اس نے اپنی بڑی بہن کو کہا تھا کہ میری بیٹی کو اپنی بہو بنا لینا , اور اس کی بہن نے اس کی بات مان لی تھی ۔ یوں جیسے تیے جین کیشادی امجد صاحب سے ہو گئی تھی اور امجد صاحب نے جین دی مگر چونکہ جبین کے کو ملازمہ سے زیادہ حیثیت * جین نے صبر شلر کر کے پاس : امجد صاحب کے ساتھ گزارہ کر لیا ۔ وقت گذرتا رہا اور امجد کے گھر بیٹی پیدا ہوئی ، والدین ایک ایک کر کے گزر کئے اور امجد صاحب کی مارکیٹس ملک اور بیرون ملک بھی چلنے لگیں ۔ امجدصاحب کے کسی حاسد دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ بزنس کسی کے گھر میں ہی ہے ناد انجوائے کرو یا انجواے کروں دوسری شادی کر کے اپنا وارث پیدا کر و ۔
امجد صاحب ایک اچھے بزنس مین ہوتے ہوۓ بھی اپنے منافق دوست کو نہ پہچان سکے ۔ اور اس کی بات پر عمل کرنے کا سوچنے لگے ۔ دوسری طرف امجد اتنا کیوں بڑھا رہے ہو ۔ دینا لو اور زندگی پرصاحب کی بیٹی ایمن بھی سترہ سال کی ہو چکی تھی ۔ امجد صاحب نے اپنی بیٹی کی ہم عمر زویا نامی ایک لڑکی کو پی اے رکھ لیا ۔ زویا ایک شاطر لڑ کی تھی ۔ اس نے جلد ہی امجد صاحب کو سینے میں اتارنا اور لندن میں موجود مارکیٹس کی وہ مینیجنگ ڈائر یکٹر بن لئی ۔ زویا نے وہاں کے ورکرز پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا , دوسری طرف امجد صاحب نے زویا کو شادی کی پیشکش کردی , جو کہ زویا نے دو شرائط کے ساتھ قبول کر لی کہ ایک لندن والا بزنس زویا کے نام کیا جاۓ ۔ اور دوسری شرط له پی بیوی سے اجازت لی جاۓ ۔ امجد صاحب نے پلک جھپکتے ہی لندن والا بزنس زویا کے نام کر دیا مگر جب گھر میں دوسری شادی کی بات کی تو ان کی بیوی جبین نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مگر ایمن نے انتہائی سخت جواب دیا ۔ اور کہا کہ آپ یا دوسری شادی کورکھیں گے یا ہمیں , ایمن کی یہ بات سن کر امجد صاحب نے ایمن کی ماہ جبین کو فورا طلاق دے دی اور ایمن کو بھی گھر سے ماں کے ساتھ نکال دیا ۔ ایمن ماں کے ساتھ ماں کی آبائی گھر میں آگئی ۔ شروع میں ایمن نے ملازمت کی کوشش کی مگر ہر طرف بھیٹریے بیٹھے تھے ہفتے دو ہفتے بعد ہر کوئی جسم کی ڈیمانڈ کر تھے , دیتا ۔ لہذا ایمن نے وہ سب مچوڑ کر اکیڈمی پڑھانا شروعکر دی , ادھر پہلی بیوی سے طلاق ہونے کے بعد زویا نے پاکستان و والے کار و بار کر باقی کا آدھا کاروبار بھی اپنے نام کر وا لیا ۔ اب زویا ہر چیز کی مالک بن گئی تو اس نے امجد صاحب سے طلاق لے کر لندن میں اپنے ایک دوست کے ساتھ شادی کر لی ۔ اور امجد صاحب نے بینک میں موجود رقم سےشراب اور جسم خرید کر غم غلط کرنا شروع کر دیا ۔ ایمن کی ماں اس عمر میں طلاق کا داغ ماتھے پر لگنے اور گھر میں فاقوں کی نوبت اور جوان بیٹی دہلیز پر بیٹھی ہونے کا سوچ سوچ کرو دماغ کے کینسر کا شکار ہو گئی ۔ ایمن تو مشکل سے گھر میں ایک دو سے وقت کا کھانا پورا کر رہی تھی اس لیے ماں کی بیاری کا علاج کسی طور پر ممکن نہ تھا ۔ اس نے ہر جگہ سے مدد مانگی مگر *کوئی مناسب حل نہ ملا ۔
آخر ایک دلال نے ایمن کے جسم کے عوض اس کی ماں کے علاج کی حامی بھر لی مگر ایمن نے انکار کر دیا ۔ ایمن کے انکار کے بعد دلال ایمن کو کہنے لگا کہ تم لوٹ کر میرے پاس آؤ گی مگر شاید میں تب تمہیں اتنی قیمت ادا نہ کروں ۔ ایمن دلال کی بات سن کر چپ کر کے چلی گئی ۔ ادھر ایمن کی ماں کی تکلیف حد سے بڑھ گئی , ساری ساری رات وہ درد سےچلاتی تھی , ایمن کی ماں کی تکلیف ایمن سے برداشت نہ ہوئی ۔ تو ایمن نے دلال کی بات مان لی ۔ مگر اب دلال نے ایمن کو دبئی کے ایک ہوٹل میں بیچنے کا کہا ۔ اور کہنے لگا کہ تمہاری ماں کا علاج بہترین ہو گا ۔ ایمن نے اپنے سامنے ماں کو بہترین ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں داخل کروا دیا ۔ اور خود دلال کی بات مان کر دبئی کے ایک ہوٹل میں چلی گئی ۔ دوسری طرف ایمن کا باپامجد بھی اپنے دوست کے ساتھ دبئی میں عیاشی کرنے آیا ہوا تھا ۔ امجد کو اس کے دوست نے بتایا کہ فلاں ہوٹل میں ایک قا اسی لڑکی آئی ہے ۔ امجد اور ان پچ نے منہ بولی قیمت ادا کر کے لڑکی کو ایک رات کے لیے بک کر لیا ۔ اور جب مقررہ وقت پر وہ اپنے دوست کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں پہنچا تو سامنے اپنی بیٹی کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔
دوسری طرف ایمن نے بھی جب اپنے جسم کا پہلا خریدار اپنے باپ کے روپ میں دیکھا تو ایمن نے بھی زندگی کے مزید ستم سہنے سے انکار کر دیا ۔ یوں دونوں ستم سہنے سے انکار کر دیا ۔ یوں دونوں باپ بیٹی نے اسی ہوٹل سے کود کر جان دے دی ۔