Urdu News

All about islamic and Urdu Stories

ایک عورت کا صبر زبردست تحریر

ایک عورت کا صبر زبردست تحریر

ایک عورت کو اللہ ہر بار اولاد نرینہ سے نوازتا مگر چند ماہ بعد وہ بچہ فوت ہو جاتا لیکن وہ عورت ہر بار صبر کرتی اور اللہ کی حکمت سے راضی رہتی تھی۔مگراس کے صبر کا امتحان طویل ہوتا گیا اور اسی طرح ایک کے بعد ایک اس عورت کے بیس بچے فوت ہوئے۔ آخری بچے کے فوت ہونے پر اس کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔وہ آدھی رات کو زندہ لاش کی طرح اٹھی اور اپنے خالق حقیقی کے سامنے سر سجدے میں رکھ کر خوب روئی اور اپنا غم بیان کرتے ہوئے کہا‘اے کون و مکاں کے مالک.! تیری اس گناہگار بندی سے کیا خطا ہوئی کہ سال میں نو مہینے خون جگر دے کر اِس بچے کی تکلیف اٹھاتی ہوں اور جب امید کا درخت پھل لاتا ہے تو صرف چند ماہ اس کی بہار دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔

آئے دن میرا دل غم کا شکار رہتا ہے کہ میرا بچہ پروان چڑھے گا بھی کہ نہیں۔اے دکھی دلوں کے بھید جاننے والے! مجھ کمزور پر اپنا لطف و کرم فرما دے۔ روتے روتے اسے اونگھ آ گئی۔ خواب میں ایک شگفتہ پربہار باغ دیکھا جس میں وہ سیر کر رہی تھی کہ سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ایک محل نظر آیا جس کے اوپر اس عورت کا نام لکھا ہوا تھا۔باغات اور تجلیات دیکھ کر وہ عو رت خوشی سے بیخود ہو گئی۔ محل کے اندر جا کر دیکھا تو اس میں ہر طرح کی نعمت موجود تھی اور اس کے تمام بچے بھی اسی محل میں موجود تھے جو اسے وہاں دیکھ کے خوشی سے جھوم اٹھے تھے۔پھر اس عورت نے ایک غیبی آوازسنی کہ تو نے اپنے بچوں کے مرنے پر جو صبر کیا تھا یہ سب اس کا اجر ہے۔ خوشی کی اس لہر سے اس کی آنکھ کھل گئی۔جب وہ خواب سے بیدار ہوئی تواس کا سارا ملال جاتا رہا اور اس نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے عرض کیا ‘ یا الہٰی اب اگر تواس سے بھی زیادہ میرا خون بہا دے تو میں راضی ہوں۔

اب اگر تو سینکڑوں سال بھی مجھے اسی طرح رکھے تو مجھے کوئی غم نہیں۔ یہ انعامات تو میرے صبر سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو ہر حال میں صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے کیونکہ یہی چیز انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے۔مصیبتیں‘ پریشانیاں اور دکھ یہ اللہ اپنے بندوں پر اس لئے بھیجتا ہے کہ وہ ان کے درجات بلند کرنا چاہتا ہے‘ صبر کرنا ولیوں اور پیغمبروں کا شیوہ ہے‘ صبر کرنے سے انسان ایسے درجات پا لیتا ہے جو بڑے بڑے عبادت گزار نہیں پا سکتے۔حکایت نمبر 63 مترجم کتاب ‘حکایات رومی‘ از حضرت مولانا جلال الدین رومی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *