Urdu News

All about islamic and Urdu Stories

میراشوہر اچانک ملک سے باہر چلا گیا تو میری ساس دن بھر مجھے طعنہ دیتی الٹی سیدھی باتیں سناتی

میراشوہر اچانک ملک سے باہر چلا گیا تو میری ساس دن بھر مجھے طعنہ دیتی الٹی سیدھی باتیں سناتی

میراشوہر اچانک ملک سے باہر چلا گیا تو میری ساس دن بھر مجھے طعنہ دیتی الٹی سیدھی باتیں سناتی لیکن میرے سسر کے آتے ہی رات میرے کمرے میں آ جاتی اور میرے ہاتھ پاؤں دبا کر میری خدمت کرتی تو مجھے وہی نیند آجاتی صبح ہوتے ہی میرے سر میرے ہاتھ میں ہزاروں کے نوٹ دیے کے کہتے یہ تمھارا انعام ہے مجھے بہت حیرت ہوتی ہیں کون سا انعام ہے ایک دن مجھے شک ہو اتورات کو میں ساس کے کمرے میں آنے سے پہلے ہی آنکھ بند کر کے جھوٹ موٹ کا سوگئی تھوڑی دیر بعد ہی پیروں تلے سے زمین نکل

گئی میر انام شمائلہ ہے میرا تعلق ایک غریب طبقے سے ہے ہم چار بہنیں تھیں میں سب سے بڑی تھی لیکن بہت خوبصورت تھی۔۔۔ میرے والدین بے حد خوش تھے جب میر ارشتہ ایک کھاتے پیتے خاندان سے آیا تھا۔۔۔انہوں نے جہیز کی بھی ڈیمانڈ نہیں کی تھی بس انہیں شادی جلدی چا ہیے تھی۔۔۔ میر اجمل سے سادگی سے نکاح ہو اتھا۔۔۔میری ساس بہت چاہت سے مجھے اپنے گھر لیکر گئی تھی۔۔۔ اجمل شادی کی رات بھی بہت چپ چپ سے تھے ۔۔۔ ناتو میری تعریف انہوں نے زیادہ کی تھی ناہی محبت کا اظہار کہنے لگے

ساس بہت چاہت سے مجھے اپنے گھر لیکر کی تھی۔۔۔ اجمل شادی کی رات بھی بہت چپ چپ سے تھے ۔۔۔ ناتو میری تعریف انہوں نے زیادہ کی تھی ناہی محبت کا اظہار کہنے لگے میں پریٹیکل قسم کا بندہ ہوں مجھے رومانس نہیں پسند ۔۔۔ میں نے آگے سے کچھ نا کہا۔۔۔ مجھے لگا وقت کے ساتھ ساتھ میں انکے مزاج سے واقف ہو جاؤ ۔ گی میری ساس اور سسر کا رویہ مجھ سے بہت اچھا تھا۔۔۔ لیکن شادی کو ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اجمل واپس بیرون ملک چلے گئے تب۔ مجھے پتہ چلا کہ میری ساس بہت سخت مزاج عورت تھی۔۔۔ ہر وقت مجھے

میں پریٹیکل قسم کا بندہ ہوں مجھے رومانس نہیں پسند ۔۔۔ میں نے آگے سے کچھ نا کہا۔۔۔ مجھے لگا وقت کے ساتھ ساتھ میں انکے مزاج سے واقف ہو جاؤ ۔ گی میری ساس اور سسر کا رویہ مجھ سے بہت اچھا تھا۔۔۔ لیکن شادی کو ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اجمل واپس بیرون ملک چلے گئے تب۔ مجھے پتہ چلا کہ میری ساس بہت سخت مزاج عورت تھی۔۔۔ ہر وقت مجھ سے گھر کے کام کاج کر واتی رہتی تھی۔۔۔ میں پورا دن گھر کے کاموں میں الجھی رہتی تھی اور وہ میرے ہر کام کو تنقیدی

نظر سے دیکھتی تھی۔۔۔ یہ سلسلہ اسوقت زیادہ ہی بڑھ گیا تھا جب میراشوہر نوکری کے سلسلے میں دوسرے ملک چلا گیا تھا۔۔۔ میرے شوہر کے سامنے میری ساس میرے ساتھ بہت اچھابر تاؤ کرتی تھی میری شادی کو ابھی بس چند ہی ماہ گزرے تھے لیکن ان۔ چند ماہ میں یہ سمجھ گی تھی کہ میرا سرال تنگ نظر اور دقیانوسی قسم کا ہے ۔۔۔ میری ساس۔ نے میرے شوہر کے جانے بعد پہلے تو بہانے ماسی گھر کے کاموں کے لئے ملازمہ ہٹوادی کہ وہ صاف کام نہیں کرتی نوکرانی کے جاتے ہی میری ساس نے میرے سر پر صفائی کی

ذمہ داری بھی ڈال دی میں جس کمرے سے جھاڑو لگا کر باہر آتی وہ کہتی ہیں کہ تم نے ٹھیک ہے صفائی نہیں کی دوبارہ جا کر مجھاڑو لگا و پورے دن بس مجھ سے یہی کام کرواتی رہتی لیکن جب بھی سسر کے آنے کا وقت ہو تا مجھ سے کہتی جاؤں اپنے کمرے میں اور صاف ستھر اجوڑا پہن کر آؤں میں شام ہوتے ہی ایک صاف ستھر اجوڑا پہن لیتی میرے سسر کے آتے ہی میری ساس کے تیور بالکل ہی بدل جاتے مجھ سے کہتی کہ تمہارے لئے گرم چاۓ بنائی ہے میں تمہیں لا کر دیتی ہوں جب میں کہتی کہ آپ رہنے دے میں خود اپنے لئے چاۓ بنا

لوں گی وہ کہتی کہ نہیں تم میری بہو ہو لیکن میں تمہیں اس اپنی بیٹی کی طرح سے سمجھتی ہو تم بیٹھو میں تمہارے لئے چاۓ بناتی ہوں میں سمجھ نہیں پارہی تھی کہ میرے ساس کیسی دو غلی شخصیت کی مالک ہے دن میں تو ایک جابر ساس کی طرح میرے ساتھ بر اسلوک کرتی ہے اور جب سر گھر آتے ہیں تو وہ میرے آگے پیچھے گھومنے لگتی ہے مجھے چاۓ بنا کر دیتی ہے میں نہیں جانتی تھی کہ اس بات کے پیچھے کیا راز ہے لیکن جب راز فاش ہوا تو پیروں تلے زمین نکل گئی وہ میرے سر کے آتے ہی مجھ پر مہربانی برسانے لگتی تھی ایک دن تو اس

سی نے وہ کام کیا کہ میں دنگ ہی رہ گئی رات کو میرے کمرے میں آگئی اور کہنے لگی کہ تم بہت تھک جاتی ہوں پورا دن کام کرتی رہتی ہو لاؤ میں تمہارے پاؤں دبا دوں یہ سن کر تو میں حیران پریشان کی ہو گئی تھی آنکھیں پھیلا ہے اپنی ساس کو حیرت سے دیکھنے لگی میں نے کہا نہیں نہیں یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں میرے پاؤں کو کچھ نہیں ہوا۔۔۔ مجھے آپ سے پاؤں نہیں دبوانے لیکن انہوں نے میری ایک نہیں سنی اور میرے پاؤں دبانے لگی مجھے ان کی اس بات سے بہت شرم محسوس ہو رہی تھی پھر وہ تیل لے کر آگئی اور میرے پیروں

پر لگانے لگیں مجھے یہ سب بہت بر الگ رہا تھا میں نے انہیں بہت دفعہ کہا کہ مجھے آپ سے مالش نہیں کر وانی لیکن وہ زبردستی میر اپاؤں پکڑ کر اس پر تیل لگانے لگیں وہ اس قدر انچی مالش کرتی تھی کہ کچھ ہی دیر میں مجھے گہری نیند آ گئ میں پر سکون پوری رات سوئی رہی جب اٹھی تو بجاۓ تر و تازہ اٹھنے کے کے میں تھکی تھکی سی در د چور وجود کے ساتھ اٹھی تھی مجھے یوں محسوس ہو تا کہ پوری رات اسے میں نے کوئی مشقت کا کام کیا ہو صبح جب میں اٹھی تو میرے سسر مجھے دیکھے کر مسکرارہے تھے مجھے ان کو دیکھ کر حیرت ہی ہوئی کہ صبح

ہی صبح وہ مجھے دیکھ کر کیوں مسکرارہے ہیں۔۔۔ پھر جو سوال انہوں نے مجھ سے کیا وہ مجھے حیرت میں ڈال گیا تھا مجھ سے کہتے رات کو سکون سے نیند آگئی تھی نہ تمہیں ؟؟ مجھے سر کا یہ سوال کچھ الجھن میں ڈال گیا تھا میں یہ سوچنے لگی کہ وہ مجھ سے یہ سوال کیوں کر رہے ہیں میں نے تو بھی نیند کی خرابی کی شکایت نہیں کی لیکن بہر حال میں نے بھی میں دھیمے لہجے میں کہہ دیا کہ جی میں سوگئی تھی۔۔۔ ایک اور عجیب بات اور تھی کہ میری ساس کبھی بھی میرے سسر کے کمرے میں نہیں سوتی تھی وہ ہمیشں۔ اپنے الگ کمرے میں سوتی تھی میں

نے آج تک اپنی ساس کو سسر کے پاس بیٹھے ہوۓ نہیں دیکھا تھانا ہی انہیں بھی ان سے بات کرتے دیکھا تھا۔۔۔ میرے سسر کے کام پر جاتے ہی میری ساس کا پھر وہی

رو یہ میرے ساتھ ہو تا وہ مجھ سے گھر کے ۔ کام کاج کر وانے لگتیں۔۔ اور سر کے آتے ہی وہ میرے خد متیں کرنے لگتیں کچھ دنوں سے یہی معاملہ ہو رہا تھار وزانہ میری ساس میرے پاؤں زبر دستی پکڑتی اور تیل لگا کر مالش کر دیتی اور مالش ہوتے ہیں میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگتی

میں بہت چاہتی کہ میں ناسووں لیکن میری نیند میرے اختیار میں نہیں تھی میری آنکھیں خود بخود سے بند ہونے لگتی اور چند سیکنڈ میں ہی مجھ پر نیند سوار ہونے لگتی تھی مجھے یہ سمجھے نہیں آتا کہ مجھے نیند کیوں طاری ہونے لگتی ہے یہ بات بھی سچ ہے کہ میں بہت تھکی ہوئی ہوتی تھی لیکن جس طرح سے مجھ پر غنودگی طاری ہوتی تھی مجھے لگتا کہ کوئی نشہ ہے جو مجھ میں سوار ہوا ہے ۔۔۔ میں ایسی گہری نیند سوتی کہ میری رات

بھر میں ایک بار بھی آنکھ نا کھلتی حالانکہ میں نیند کی بہت کچھی تھی ذراسی آہٹ پر میری آنکھ کھل جاتی تھی لیکن جب = میرے ساس میرے پاؤں میں تیل لگانے لگی تھی میں ایسی گہری نیند سوتی کہ مجھے ہوش نہیں رہتی میں کہاں ہوں۔۔ ۔ میرے ساتھ بہت عجیب غریب واقعات پیش آنے لگے تھے ایک بار باہر دروازے پر دستک ہوئی میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے ایک بچہ فلاور بکے لئے کھڑا تھا مجھے پکڑانے لگا کہنے لگا یہ آپ کے لئے میں اس بچے کو دیکھ کر مسکرانے لگی میں سوچا کہ میری ساس کے جاننے والا ہو گا اس لئے مجھے

بر فلاور کہکے دے گیا وہ بچہ جس چکا تھا لیکن اس فلاور کے پر ایک کارڈ تھا جس پر لکھا تھا خو بصورت لوگوں کے لئے

خوبصورت تحفہ فقط آپ کا خیر خواہ۔۔۔۔۔ یہ پڑھ کر مجھے حیرت کا جھٹکا بڑی زور سے لگا تھا۔۔۔ میں نے گھبرا کو وہ کے زمین پر پھینک دیا۔ ناجانے کون تھا کس نے یہ گھٹیا حرکت کی تھی۔۔۔ میں نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیا میں اس اجنبی خص کی حرکت پر کم پر یشان نا تھی کہ دوسری بات مجھے ا پریشان نا پریشان پر ایشان کیے ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ میں صبح کمرے سے باہر

آتی ہے میر اپو راوجو د درد سے چور ہو تا تھامیری آنکھیں نیند سے بو جھل رہتی تھیں میر اسر بھاری بھاری سا ہو تا تھا میں کچن میں ناشتہ بنانے کے لیے جانے لگتی تو میرے ساتھ کہتی کہ رہنے دو تم بیٹھو میں تمہارے لیے ناشتہ بنا کر لاتی ہوں سب سے پہلے وہ مجھے نمبو پانی پلاتی اسے پینے کے بعد میر اکچھ ہوش ٹھکانے آتا تھا۔۔۔اس کے بعد میری ساس۔ میرے سامنے میر اناشتہ رکھ دیتی جب تک میں ناشتہ کرتی رہتی میرے سسر کی نظر مجھ پر رہتی تھی مجھے دیکھ کر مسکراتے رہتے ہیں پھر ایک بار ایسی بات کہی کہ میر ادل دھک سے رہ

گیا کہنے لگے نیلے لباس میں تم بہت پیاری لگتی ہو۔۔۔ یہ سن کر مجھے حیرت کا جھٹکالگا تھا یہ لباس میں نے رات کو پہنا تھا۔۔۔ اپنے کمرے میں آ جانے کے بعد پہنا تھا اور وہ میرا آرام دو لباس تھا اسے میں رات کو ہی پہنتی تھی میرے سر کو کیسے علم کہ میں نے نیلے رنگ کا لباس پہنا تھا یہ سن کر میں شرم سے نظر میں جھک گئی تھی اب تو مجھے یہ تشویش ہونے لگی تھی رات کو میرے ساتھ ہو تا کیا ہے ابھی میں اسی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ میں گہری نیند سو کیسے جاتی ہوں اور میر اسمر کیسے جان لیتا ہے کہ میں نے رات کو کیا پہناتھا میں اسی بات

عمر تنہائی میں مار تارہتا تھا اسے اب تم پسند آگئی ہو میں تمہاری شادی اس سے کروا کر اپنی زندگی سکون سے گزارنا چاہتی ہوں جو اذیت میں سہتی رہی وہ اب تم سہا کروں گی واپسی کا تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے ۔۔۔۔ یہ کہ وہ کمرے سے باہر چلی گئیں میراشوہر مجھے طلاق دے چکا تو۔ مجھے خبر تک نا تھی۔۔۔ میں کیسے یہاں رہ سکتی تھی۔ میں اپنے ہی سسر کی بیوی پر گز نہیں بنا چاہتی تھی۔۔۔اس لئے میں سوچ چکی تھی کہ مجھے یہاں اب کسی قیمت پر نہیں رہنا مجھے ساری زندگی کی

غلامی اور اذیت منظور نہیں تھی۔ اس لئے جب میں کمرے سے باہر نکلنے لگی تو کمرے کا دروازہ لاک تھا۔۔۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹا یا تو ساس کی آواز آنے لگی کہنے لگی جب تک تمہارا نکاح میرے شوہر سے نہیں ہو جاتا تم اس کمرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔۔۔ یہ سن کر تو میرے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی تھی میں ایسا نہیں چاہتی تھی اس لئے میں نے انکار کر دیا تھا میں نے کہامیر ادروازہ کھولو مجھے یہاں سے جانے دو میری ساس نے کہا نکاح تمہیں ہر حال میں کرنا پڑے گا۔۔۔ ور نہ تم اسی کمرے میں بچھو کی پیاسی مر جاؤں گی ۔۔۔ میری

ساری التجائیں بے کار ثابت ہوئیں تھیں۔۔۔ میں رات بھر روتی رہی میرے پاس بس ایک ہی راستہ بچا تھا میں اپنی کھٹر کی کے سامنے کھڑی ہو گئی سامنے والی کھٹر کی کھلی ہوئی تھی کمرے میں روشنی بھی تھی مجھے ایک امید ی جاگی تھی کہ وہاں موجود شخص ہی شاید میرا مسیحا بن جاۓ ۔۔۔ میں نے جاۓ۔۔۔ اس شخص کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑے اور اشارے سے اسے کہا کہ مجھے بچالے۔۔میرے پاس اپنی جان خلاصی کی یہی ایک صورت تھی ایک گھنٹے کے بعد ہی میرے دروازے پر پولیس موجود تھی اور وہ شخص بھی وہ میری بات سمجھ گیا تھا

میں پولیس کو ساری سچائی بتا دی مجھے ان لوگوں کی خلاصی مل چکی تھی میں اپنے گھر واپس آ گی چند ماہ بعد ہی اس شخص نے مجھ سے نکاح کر لیا جس نے میری مدد کی تھی۔۔۔۔ میں اس ۔ کے ساتھ بہت خوش تھی

Sharing is caring!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *