وہ بہت پیاری لڑکی تھی شادی ہوئی تو پہلی رات ہی پتہ چلا کہ اس کو شوہر نامرد ہے

میں نے اسے بہت روکا کہ واپس مت جاؤ وہ نہ رکی ۔ میرا انصاف میرا رب کرے گا وہ چلی گئی ۔۔شادی کے دوسرے مہینے خانم کو یہ باور ہوگیا کہ اس کا شوہر اسے وہ سکھ نہیں دے سکتا جو ایک عورت کو چاہیے ہوتے ہیں۔ اس نے اپنا شرعی حق استعمال کرتے ہوئے ط لا ق مانگ لی بھائی جج تھا ۔
اس نے بھرپور ساتھ دیا اور خانم اپنے گھر آگئی ۔ وقت کے ساتھ عمر بھی ڈھلنے لگی۔ایسے میں بھابھی کے بھائی کا رشتہ خانم کیلئے منظور کرلیا گیا ۔ جس کی بیوی ایک پانچ سال کا بچہ چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔ خانم اس بے جوڑ شادی پر تیار نہ تھی ۔ مگر اس دفعہ جج بھائی ساتھ نہ دے سکا۔بہت سے وعدے کرکے اسے نکاح کیلئے تیار کیا ۔مگر کہانی کچھ اور تھی شادی کی پہلی رات ہی اسے کہا گیا کہ وہ بچے کی خواہش نہ پالے کیونکہ اس کے شوہر کو اپنےبیٹے کا شری۔ک پیدا نہیں کرنا تھا ۔
ایکسویں صدی میں جسے پانی کی موٹر بھی نصیب نہ تھی ۔ وہ بنیادی ضروریات سے بھی محروم تھی ۔ غسل خانہ بھی میسر نہ تھا۔ ایک فطری خواہش کی کہ مجھے ماں بننے کے حق سے محروم نہ کرو ۔ وہ عظیم عورت اپنے بھائیوں کی لاج رکھ لیتی ۔اپنا سامان بیچ کر شوہر اور اس کے بچے کو پا ل رہی ہے ۔ اس صبر کی مثال نے بھائیوں کی لاج کیلئے خاموشی کی بکل تان لی اور مجھے بھی لب سینے پر مجبور کردیا کہ اب اس عمر میں دنیا کا تماشہ نہیں بن سکتی ۔شوہر کو صرف روٹی چاہیے تھی وہ خود ہی اپنی ڈاکٹر بنی رہی شام کو ٹھنڈے پانی سے کپڑے دھوئے تو طبیعت زیادہ خراب ہوگئی شوہر کو کھانا دینے کے بعد کہا مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ مگر اس نے سونے کی ہدایت کی کہ صبح دیکھیں گئے ۔خانم اٹھی اور سر چکرانے لگا پھر وہیں گر گئی اور سر پر چ و ٹ لگی اور دم ت وڑ گئی اور اسطرح اس دنیا کے مظ الم سے ج ان چھ۔ڑوا گئی وہ