چاچا کی بیٹی نے شادی والی رات خود کشی کر

میر انام انوشہ ہے اور میرا تعلق ایک اچھے گھرانے سے تھا۔ باپ غریب ضرور تھا مگر وہ ہمیں اپنی محنت کی کمائی کھلاتا تھا جبکہ میرا ایک چاچا تھا جو کہ ہم سے بہت امیر تھا اور اس کے بچے ہمارے مقابلے میں بہت بہتر زندگی گزار رہے تھے، مگر چاچا کے ہاں حرام حلال کی کوئی تمیز نہ تھی ، ابو حق حلال کی روٹی روزی کماتا کما تا وقت سے پہلے ہی بوڑھا ہو گیا تھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیماری نے زور پکڑ لیا۔ ہمارے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے تھے کہ ہم اس کا علاج کر پاتے اور پھر اسی کسمپرسی کی زندگی میں ایک دن وہ ہمیں اکیلا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گیا، اور گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی ، میں گھر میں سب سے بڑی تھی ، اور میرے باقی بہن بھائی چھوٹے تھے۔
ایسے میں امی نے کہا کہ وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرلے گی تاکہ گھر کا گزارہ چلتار ہے مگر میں نے امی کو کام کرنے سے منع کر دیا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری امی بھی ابو کی طرح بیمار پڑ جائے اور ابو کی طرح وقت سے میری امی بھی ابو کی طرح بیمار پڑ جائے اور ابو کی طرح وقت سے پہلے یہ دنیا چھوڑ جائے۔ اس لیے میں نے خود ہی نوکری کرنے کا سوچ لیا۔ میں نے ایف کیا ہوا تھا اور میرے باپ کو شوق تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں مگر اب میرا باپ ہی نہیں رہا تھا اور نہ میرے پاس اتنے پیسے تھے کہ میں اپنے باپ کا سپنا پورا کر سکوں۔ اس لیے میں نے نوکری تلاش کرنا شروع کر دیا مگر میری تعلیم بہت کم تھی مجھے کوئی بھی نوکری دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس موقع پر امی نے کہا کہ تم اپنے چاچا سے بات کر لو۔ شاید وہ کہیں پر تمہاری نوکری لگوا دے مگر یہ سن کر میں رونے لگی۔
ای میں افضل چاچا کی سگی بھتیجی ہوں اور وہ اپنے بھائی کے جنازے پر دیکھ کر گیا تھا کہ ہم اتنی مشکل میں ہیں مگر اس کے باوجود وہ مڑ کر کبھی ہمارے گھر نہیں آیا اور نہ ہی اس نے کبھی پوچھا کہ ہم زندہ ہیں یا مر گئے۔“ یہ سن کر امی کی بھی آنکھیں بھر آئیں۔ اس دن کے بعد امی نے چاچا کے متعلق کوئی بات نہیں کی اور میں نے ایک فیکٹری میں نوکری کر لی۔۔۔ وہاں مجھے اتنی تنخواہ مل جاتی تھی کہ ہمارے گھر اچھا چلنے لگا اور امی بھی بے فکر ہو گئی مگر ایک دن فیکٹری کے مالک نے مجھے کام کرتے دیکھ لیا اور وہ مجھے روز روز اپنے دفتر میں بلانے لگا۔ اس نے اب تک مجھ سے کچھ نہیں کہا تھا مگر اس کے دیکھنے کا انداز میں بھانپ گئی تھی، اس لیے میں نے ایک اور نوکری تلاش کرنا شروع کر دی تا کہ یہ فیکٹری والی نوکری چھوڑ دوں۔ اس سلسلے میں میری ایک دوست نے مدد کر دی اور میں جلد ہی میں ایک سکول میں پڑھانے لگی۔
فیکٹری چھوڑنے کے کئی مہینوں تک مالک ایک لڑکی کو میرے گھر بھیجتارہاتا کہ میں فیکٹری واپس آجاؤوں مگر میں نے ہر بارا انکار کر دیا اور بڑی مشکل سے میری جان چھوٹی سکول کی نوکری میں میری تنخواہ کم تھی مگر میں نے گزارہ کر لیا۔ ویسے بھی میں اپنی چاچا کی کی بیٹی کی طرح فیشن نہیں کرتی تھی۔ میں تو سکول بھی جاتی تھی تو بالکل سادہ رہتی تھی جبکہ میرے چاچا کی بیٹی تو گھر میں بھی بن سنور کر رہتی تھی اور کیوں نہ رہتی کیونکہ اس کا باپ امیر تھا اور وہ اس کے پیسے پر عیش کر رہی تھی۔ میرے باپ کے مرنے کے بعد میرے چاچا بھی ہمارے گھر نہیں آئے مگر ہم چاچا کے دکھ سکھ میں اس کے گھر چلے جاتے تھے کیونکہ ابھی ہمارا خون اتنا سفید نہیں ہوا تھا۔
میرے چاچا کی ایک ہی بیٹی تھی اور وہ میری دوست بھی تھی مگر وہ امیر ہونے کی وجہ سے مخرے بھی کرتی تھی اور کیونکہ میں غریب تھی اس لیے اس کے نخرے بھی برداشت کر لیتی تھی۔ جب میں نوکری کر رہی تھی تو میں نے سنا کہ چاچا کی بیٹی امبر کا بڑا اچھار شتہ آیا ہوا تھا۔ یہ خبر میں نے امی کو سنائی تو وہ بھی خوش ہو گئی اور مجھ سے کہا کہ چھٹی والے دن مبارکباد دینے جائیں گے مگر یہ سن کر میر امنہ بن گیا اور میں نے امی سے کہا: میں نے آپ کو یہ خبر اس لیے نہیں سنائی کہ آپ چاچا کے گھر مبارک دینے چل پڑیں۔ وہ ہمارے گھر نہیں آتے تو ہم کیوں جائیں ۔ مگر امی کہنے لگی۔ پھر ان لوگوں اور ہم میں کیا فرق رہ جائے گا۔ امی کی یہ بات سن کر میں چپ ہو گئی اور چھٹی والے دن امی مجھے زبردستی چاچا کے گھر لے گئی اور جب وہاں گئے تو گھر میں تو شادی کی تیاریاں شروع تھیں۔ یہ دیکھ کر تو امی بھی ہکا بکا رہ گئی کیونکہ امبر نے تو کہا کہ اس کی اگلے ہفتے شادی ہے۔
یہ سن کر امی نے چاچا سے گلہ کہا کہ اس کی اگلے ہفتے شادی ہے۔ یہ سن کر امی نے چاچا سے گلہ کیا تو وہ کہنے لگا : ” میں آپ کے گھر کارڈ دینے آہی رہا تھا کہ آپ لوگ ہمارے گھر آگئے۔ چاچا کی بات سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ میں پہلا رہا تھا اور میری بھولی بھالی ای پیل بھی گئی۔ اسی وقت امبر اپنے سسرال والوں کی تعریف کرنے لگی کہ وہ بہت زیادہ امیر تھے اور مجھے شادی کے بعد الگ گھر لے کر دیں گے۔ یہ سن کر میں خاموش ہو گئی کیونکہ وہ مجھے جلانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ وہ مجھے اپنے زیورات اور کپڑے دکھانے لگی میں کچھ دیر یہ سب دیکھتی رہی اور پھر گھر آگئی ، اور آتے ہی امی سے کہا کہ مجھے ایسے شومارنے والوں کے گھر دوبارہ نہیں جانا۔ اس دن اپنی امی نے کچھ نہیں کہا اور چپ ہی رہی شاید امی کو بھی یہ بات بری لگی تھی۔۔ لیکن دو دن بعد ہی چاچا ہمارے گھر آیا اور ہمیں شاپنگ کرانے لے گیا۔ میں تو نہیں جانا چاہتی تھی مگرامی اور میرے چھوٹے بہن بھائی چاچا کی گاڑی میں بیٹھ گئے
اور مجھے بھی مجبورا ان کے ساتھ جانا پڑا ۔ اس دن چا چانے ہم سب بہن بھائیوں کو دل کھول کر شاپنگ کرائی اور جب گھر چھوڑنے آیا تو کہا کہ تم سب نے میری بیٹی کی شادی میں ضرور آتا ہے۔ اس دن امی نے کہا کہ تمہاری نوکری کی وجہ سے ہم تمہارے چاچا کے گھر رہ تو نہیں سکتے مگر ہر فنکشن پر ضرور جائیں گے۔ اس دن امی اور میرے بہن بھائی بہت خوش تھے اس لیے میں بھی ان کی خوشی میں خوش ہو گئی۔ چونکہ میری نئی نئی جاب تھی اس لیے مجھے صرف ایک ہی چھٹی مل سکتی تھی اس لیے جس دن میرے چاچا کے بیٹی کی شادی شروع ہوئی۔ ہم سب وہاں جاتے اور رات کو گھر آجاتے تھے البتہ امہر کے نکاح کے دن مجھے چھٹی مل گئی اور ہم سب صبح صبح چاچا کے گھر چلے گئے۔ لیکن چاچا کے گھر گئے تو چاچا بہت گھبرایا ہوا تھا۔ ابھی مہمان نہیں آئے تھے اس لیے وہ گھر میں اکیلا تھا اور مجھے امیر بھی کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔
میں نے چاچا سے امیر کے بارے میں پوچھا تو چاچا بچوں کی طرح رونے لگا اور کہا کہ امیر کو کل سے بخار تھا اور وہ آج صبح مر گئی۔ یہ سن کر ہم سب ہکا بکار و گئے کیونکہ ایک جوان لڑکی ایسے کیسے مرسکتی ہے مگر ایک باپ اپنی بیٹی کے بارے میں کیسے جھوٹ بول سکتا تھا۔ یہ سوچ کر ہم بھی رونے لگے کیونکہ امبر بے چاری اپنی شادی پر بہت خوش تھی اور آج وہ مرگئی۔ اسی وقت گھر میں مہمان آنے لگے اور چاچا گھبرا گیا اور ہم سے کہنے لگا: ”اب میں لوگوں کو کیا بتاؤں گا۔ ہائے ابھی بارات آجائے گی اور یہ شادی والا گھر ماتم والا گھر بن جائے گا اور میری بیٹی کے سرال والے تو مجھ پر یقین ہی نہیں کریں گے ۔ یہ کہہ کر چاچا رونے لگا۔ میں نے چاچا کو چپ کراتا چاہا تو چا چانے میرے ہاتھ پکڑ لیے۔۔۔ بیٹا گھر مہمانوں سے بھر رہا ہے۔ میں کس کس کو جواب دوں گا یہ شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ میری بیٹی مرگئی ہے۔ یہ دنیا بہت ظالم ہے۔
میری معصوم بیٹی پر طرح طرح کے الزام لگائیں گے کہ شادی والے دن لڑکی مرگئی سے یقینا وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے خود کشی کرلی۔” چاچا کی بات سن کر میں نے اس سے پوچھا چا چا اب تم کیا چاہتے ہو۔۔ ؟” یہ سن کر چاچا کہنے لگا: “بیٹا اب میری عزت تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ میری معصوم بچی پر یہ الزام لگنے سے بچالو اور اس کی جگہ تم یہاں شادی کر لو۔ تمہارے جانے کے بعد میں سب کو امبر کے مرنے کی خبر سنادوں گا ۔۔ اور بعد میں لوگ میری بیٹی پر الزام نہیں لگائیں گے۔ یہ سن کر میں ششدر رہ گئی۔ ایسا کیسے ممکن تھا۔ میں کیسے ایک انجان بندے سے شادی کر لوں مگر میر اچاچا تو میرے قدموں میں بیٹھ گیا اور میں نے چاچا کی عزت رکھنے کے لیے بناد ولہا دیکھے شادی کرلی اور اپنے سسرال آگئی۔ میں نے چاچا کی عزت رکھنے کے لیے شادی تو کر لی مگر یہاں آکر میں اپنے فیصلے پر پچھتانے لگی کیونکہ مجھے دولہا دیکھ لینا چاہیے تھا۔ آخر یہ میرا حق تھا مگر اب کیا ہو سکتا تھا اب تو میں اس کے نکاح میں تھی اور یہ رشتہ نہیں توڑ سکتی تھی اس لیے میں میر شکر کر کے بیٹھ گئی اور اپنے کمرے کو دیکھنے لگی جو کہ بہت خوبصورت تھا۔
میں نے تو ایسے کمرے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میری ایسے اچانک شادی ہو جائے گی اور میرا اتنا اچھا نصیب ہو گا۔ امبر ایک ہفتے پہلے جو جو چیز مجھے دکھا کر جلارہی تھی وہ میرے حصے میں آپکی تھی۔ اس بے چاری نے تو یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ یہ سب اسے پینا نصیب نہیں ہو گا اور وہ مر جائے گی۔ امبر کی یاد آتے ہی میں اداس ہو گئی کیونکہ وہ جیسی بھی تھی اس کے ساتھ میراخون کا رشتہ تھا اور مجھے اس کی اچانک موت کا دکھ ہوا تھا۔ لیکن یہ قسمت کی بات ہے ورنہ مجھے جیسی غریب لڑکی کو اتنا اچھار شتہ ساری عمر بھر نہیں ملنا تھا۔ یہ تو میر اچاچا امیر تھا اس لیے چاچانے اپنی بیٹی کے لیے اتنا اچھا رشتہ تلاش کیا تا کہ اس کی بیٹی کو کوئی دکھ نہ ملے اور وہ جنسی خوشی رہے مگر اب یہ خوشی میری ماں کے چہرے پر تھی کیونکہ کوئی بھی خرچا کیے بغیر میری شادی ہو چکی تھی اور میرا چاچا رورہا تھا کیونکہ اس نے اتنا خرچا کیا مگر وہ اس کی بیٹی مرگئی۔
شاید یہ شخص میرے نصیب میں تھا۔ یہ سوچ کر میں گہری سوچ میں ڈوب گئی، اور اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور دولہا اندر کمرے میں آگیا۔ میں نے اسے دیکھا تو فورا گھونگھٹ گرا دیا اور وہ بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوا میرے پاس آبیٹھا۔ شادی کی پہلی رات جب میں نے اپنے شوہر کو دیکھا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ ” تم ۔ نہیں۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ میں سامنے بیٹھے آدمی کو دیکھ کر جلدی سے کھڑی ہو گئی اور وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگا ”ارے بیٹھ جاؤ۔ اب تو تم میری بیوی ہو۔ اب تو نخرے مت کرو۔ “ یہ کہہ کر اس آدمی نے میرا ہاتھ پکڑنا چاہا، مگر میں نے اس ہاتھ نہیں لگانے دیا اور میں بیڈ سے نیچے اتر آئی۔ “مجھے نہیں پتا تھا کہ میری کزن کی شادی آپ سے ہونے والی تھی۔ میری بات سن کر وہ فیکٹری کا مالک بنے لگا اور مجھ سے کہا کہ میں تمہیں پسند کرتا تھا اور تم سے شادی کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے تمہارے چاچا سے بات کی اور اس نے میری شادی تمہارے ساتھ آسانی کے ساتھ کرادی یہ سن کر میں سکتے میں آگئی اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ چاچانے میرے ساتھ اتنا بڑاد ھو کہ کیا تھا۔۔
لیکن میں آپ کو پسند نہیں کرتی کیونکہ آپ میرے باپ کی عمر کے ہیں اس لیے میں اس شادی پر راضی نہیں اور میں یہ گھر چھوڑ کر جارہی ہوں۔ یہ کہہ کر میں اس گھر سے نکل آئی اور جیسی لے کر اپنے چا چا کے گھر آگئی تاکہ سارا بچ جان سکوں۔ اور جب میں اپنے چاچا کے گھر آئی تو میری رہی سہی جان بھی نکل گئی کیونکہ میرے چاچا کی بیٹی مری نہیں تھی بلکہ یہ تو میر اچاچا کا پلان تھا اور و دونوں باپ بیٹی مل کر کھانا کھا رہے تھے۔ اپنے چاچا کے بیٹی کو زندہ دیکھ کر مجھے رونا آگیا۔ ان دونوں نے اپنی ایکٹنگ سے کیسے مجھے الو بنا دیا۔ کاش مجھے ان کی ایکٹنگ دیکھ کر ہی اس کا پلان سمجھ آ جاتا۔ مگر دیر اب بھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ سب اپنے گھر مزے کر رہے تھے اور میں کیوں اس بوڑھے فیکٹری مالک کی دوسری بیوی بن کر اس کے بچے پالتی۔ یہ میری زندگی تھی مجھے بھی اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا حق تھا اس لیے جب چاچا نے مجھے اپنے گھر میں دیکھا تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور امبر مجھے یوں دیکھنے لگی جیسے میں مرگئی تھی۔
کر کیا تو چاچا مجھے تم سے اس جھوٹ کی امید نہیں تھی۔ میں نے روتے ہوئے چاچا کا گریبان پکڑ لیا اور چاچا گھبرا گیا۔۔۔ کیسا جھوٹ۔ میں نے تم سے کیا جھوٹ بولا ہے۔ میں نے تو اچھا کیا ہے۔ تمہار ا باپ ہو تا تب بھی وہ تمہارے لیے اتنا اچھار شتہ نہ تلاش کر پاتا۔ یہ کہہ کر چاچا سنے لگا اور میرے آنسو بہنے لگے۔ “میراباپ ہوتا تو آج میں ایسے جہنم میں نہ گئی ہوتی۔ میں نے چلا کر کیا تو چاچا چپ ہو گیا۔ اگر یہ اتنا اچھا رشتہ تھا تو اپنی بیٹی دے دیتے۔۔ “ یہ سن کر امبر تھے میں آگئی اور کہنے لگی : “وہ تمہار ا عاشق تھا اور میں کیونکہ کسی بوڑھے سے شادی کرنے لگی۔ میں تو لو میرج کروں گی۔۔ اور تم وہ گھر کیوں چھوڑ آئی۔ اتنے امیر لوگ تھے تمہاری تو قسمت جاگ اٹھی تھی۔ اب تو تمہارے عیش ہوتے اور نوکری سے بھی جان چھوٹ جاتی۔“ یہ سن کر میں نے امیر سے کہا: میرا باپ تمہارے باپ کی طرح نہیں تھا کہ پیسے کے لالچ میں اپنی بھتیجی کی زندگی برباد کر دی،
میرے باپ نے تو ہمیں ہمیشہ حلال رزق کھلایا تھا اور نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ خود کما کر کھانا اور لالچ نہ کرنا۔“ یہ سن کر امبر تو خاموش ہو گئی لیکن چاچا کہنے لگا۔۔۔ ”ہاں میں نے اس فیکٹری مالک سے پیسے لیے ہیں اس لیے تم واپس سرال چلی جاؤ کیونکہ میں اس کے دیے سارے پیسے خرچ کر چکا ہوں۔ یہ سن کر میر اپارہ اور چڑھ گیا، اور کہا۔۔ چاچا تم نے پیسے لیے تھے اب پیسے واپس کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ کیونکہ میں تو اس بوڑھے سے طلاق لے لوں گی کیونکہ یہ میری زندگی ہے اور میں اس کی مالک ہوں۔ یہ کہہ کر میں چاچا کو حیران پریشان چھوڑ کر اپنے گھر آگئی اور اپنی امی کو چاچا کے کرتوت کی ساری کہانی سنادی، چند دن بعد امی سے مشورہ کیا اور پھر اس بوڑھے ادمی سے خلع لے لی، کیونکہ مجھے اپنے چاچا کی طرح حرام پیسے کالالچ نہیں تھا اور نہ میں اس بوڑھے کی بیوی بن کر اپنی زندگی تباہ کرنا چاہتی تھی۔ زندگی ایک بار ملتی ہے اسے دوسروں کو فیصلے سے نہیں گزارنا چاہیے۔۔۔۔