بھابھی کو بڑی بہن جیسا سمجھتا تھالیکن

میں انہیں ہمیشہ بھا بھی کہہ کر پکار تا تھا وہ ہمارے گھر کے قریب ہی رہتی تھی تاہ مجھے مچوٹا بھائی سمجھتی تھی میں ان ہر قسم کی مالی ضرورت پوری کر تا تھا بچوں کی تعلیم اخراجات ہو یا گھر کی ضرورت کی کوئی چیز سب میری ذمہ داری تھی بھابی کو بیوہ کی زندگی گزارتے ہوۓ کافی عرصہ ہو چکا تھا
ان کے تین بچے تھے گزرتے وقت کے ساتھ میں نے محسوس کیا یہ بھابھی اکثر اداس اور غمکین رہتی ہیں میں نے ان سے اداسی کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے ہمیشہ ہنس کر ٹال دیا تاہم مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ کوئی غم ہے جو ان کو اندر ہی اندر سے کھایے جارہا ہےاور آخر انہوں نے میرے بے حد اصرار پر وہ سب کچھ کہہ ڈالا جسے وہ ایکیا عرصے سے اپنے اندر چپاۓ بیٹھی تھی اور شاید اس طرح سے انہوں نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر ڈالا انہوں نے اپنے زندگی کی کہانی کچھ اس طرح بیان کی شہاب بہت اچھے شوہر تھے بہت محبت کرنے والے اور میری ہر ضرورت کا خیال رکھنے والے سٹمس میر ا دیور تھا وہ مجھے بھا بھی سے زیادہ بڑی بہن سمجھتا تھا اور میں بھی اس مچوٹا بھائی ہونے کا درجہ دیتی تھی
کیونکہ اس کی کوئی بہن نہ تھی یعنی میری کوئی نیند نہ تھی اسی لیے وہ ہر بات مجھ سے شئیر کر تا اپنی یونیورسٹی کی با تیں سناتا اور اپنی یونیورسٹی فیلو کیا متعلق بتاتاجس سے وہ بہت چاہتا تھا وہ مجھ سے اکثر کہتا کے بھا بھی ثمینہ کے والدین سے بات کرنے کے لیے لیے آپ کو بھیجوں گا اور میں مسکرا دیتی میری اور شہاب کی شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے ہمارے دو بچے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہم اپنی زندگی میں بہت خوش تھے پھر وقت نے رنگ بدلہ اور وہ کچھ ہو گیا جس کا کسی کو کوئی تصور نہ تھامیرے شوہر کے ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ اپنی زندگی کی بازی ہار کئے ہمارے اور شہاب کے خاندان میں ایک رسم چلتی آ رہی تھی کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جاتا اور اس کا کوئی دیور ہو جو کنوارا ہو تو اس سے نکاح پڑھایا جا تا تھا ٹمس مجھے اپنی بڑی بہن کی طرح سمجھتا تھاپھر وہ اپنی یونیورسٹی کی ایک لڑکی سے محبت بھی کر تا تھا
جس کا علم گھر میں صرف مجھے تھا کیوں کہ وہ اپنی ہر بات مجھے بتاتا تھا میں جوان تھی اس لئے میرے ساتھ ساس اور سسر نے سٹمس پر زور ڈالا کہ بیٹا اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے کہ جمیلہ سے تمہاری شادی کر دی جاۓ اور پھر ہمارے خاندان کی رسم بھی یہی ہے میں جمیلہ بھابھی سے کیسے شادی کر سکتا ہوں وہ جس سے میں ہمیشہ بچہ بڑے بہن سمجھتا رہا اسے کیسے بیوی کے روپ میں قبول کروں اس نے یہ احتجاج کرتے ہوۓ کہا میری عدت کے دن پورے ہو چکے تھے اب میرے ساتھ سر کا اسرار بھی بڑھتا جارہا تھا اور وہ سٹمس پر زور ڈال رہے تھے کہ بیٹا جمیلہ سے شادی کر لو ورنہ ہمارے بیٹے کی عزت زمانے کی ٹھوکروں میں ہوں گیایک دن اس کے والد نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹا ہم بھی چاہتے تھے
تمہاری شادی تمہاری مرضی سے ہو لیکن حالات اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں که تمهاری شادی جمیلہ سے ہو خدا را مجھے اس امتحان میں مت ڈالیں جب اسے یقین ہو گیا کہ اس کی جان مچوٹنے والی نہیں تو ایک دن اس نے کہہ دیا کہ میں جمیلا بھابھی اور ان کے بچوں کی خاطر شادی نہیں کروں گا اور ساری زندگی ان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھاؤں گالیکن خدارا مجھے شادی کیلئے مت کہیں یہ کہتے ہوۓ شدت جذبات سے شمس کا چہرہ سرخ تھا میں نے دل ہی دل میں اس کے جذبات اور احساسات کی داد دی اور اس کی اتنی بڑی قربانی پر میری آنکھیں بھیگ گئیںمیرے ساس اور سر یہی کہہ رہے تھے کہ بیٹا تم جمیلہ سے شادی کر لو ورنہ لو گھے طرح طرح کی باتیں بنائیں گے اور ہمارے خاندان کی عزت خاک میں مل جاۓ گی والدین کے علاوہ جب اس کے رشتے داروں نے بھی زور دیا تو وہ مجبور ہو گیا اسے اندازہ ہو گیا کہ نکاح کیے بغیر کوئی اور چارہ نہیں اور وہ نکاح کے لئے مان گیا مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس نے کیا سوچ رکھا ہے پھر میرا اور سٹمس کا نکاح ہو گیا ور پہلی رات شمس نے مجھ سے کہا گو کہ شرعی لحاظ سے اور قانونی طور پر آپ میری بیوی ہیں
لیکن آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ میں نے آپ کو ہمیشہ اپنی بڑی بہن سمجھا ہے لہذا میں آپ کو بیوی کے روپ میں کیسے قبول کر سکتا ہوںآج سے ہم دنیا کے لئے تو میاں بیوی ہیں لیکن خلوت میں ہمارے در میان فاصلے ہو گا اور امید ہے کہ آپ میرا ساتھ دیں گی میں تمہارے جذبات کی قدر کرتی ہوں نٹس میں اس قربانی میں تمہارا ساتھ دوں گی اس طرح ہماری شادی شدہ زندگی کا آغاز ہو گیا دنیا کی نظر میں تو ہم میاں بیوی تھے مگر حقیقت میں ہمارے در میان ان ایک ایسارشتہ تھا جو ایک بہن بھائی کے در میان ہو تا ہے ٹمس کو ایک فیکٹری میں جاب مل گئی تھی کیونکہ وہ بظاہر میر ا شوہر تھا اس لئے میں سب کے سامنے اس سے ادب اور احترام سے بات کرتی ہماری شادی کو ایک سال گزر گیا اور بچے کی کوئی امید نظر نہ آئی تو ساس اور سر کو فکر ہونے لگیسر نے مس کو اپنا چیکپ کروانے کو کہا اس معاملے میں مجھ پر الزام نہیں لگالے جا سکتا تھا میں بانجھ نہیں تھی کیوں کہ شہاب سے میرے دو بچے تھے کسی کو کوئی کیا بتاتا ۔
مس کتنی بڑی قربانی دی تھی وقت گزر تا رہا اور ہمارے ہاں اولاد نہ ہوئی کوئی اور ہوتی بھی کیسے فطرتی تقاضا پورا نہیں ہو رہا تھا تھا میری ساس روایتی طریقے اختیار کرتی ہوئی اولاد کے لیے اپنے بیٹے کو تعویز وغیر ہ لا کر دیتی لیکن ہم دونوں جانتے تھے کہ یہ سب بے سود تھا وہ میری زندگی کا بد ترین دن تھا جب میں تھاوہ اپنے والدین کے گھر دوسرے شہر آئی ہوئی تھی میری ایک پڑوسن کا فون آیا کہ تمہارے شوہر نٹس نے خود کشی کر لی ہے مجھے یقین نہیں ہو رہا تھااتنامضبوط شخص خودکشی بھی کر سکتا ہے میں نے فورا بچوں کو ساتھ لیا اور گھر آگئی گر میں کہرام مچا ہوا تھا میری ساس اور سسر جن کہ ایک بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور دوسرے نے خودکشی کرلی شدید غم سے نڈھال تھے میرے ساس بھی ہو چکی تھی
اور سر بی جوان بیٹے کے غم میں نوحہ کناہ تھے شمس کی تدفین کہ چند روز بعد میں اپنے کمرے میں بیٹھی تھی سٹمس کے متعلق سوچ رہی تھی کہ اچانک میں نے اپنی بیٹی کے ہاتھ میں اپنی ڈائری دیکھی میں نے فورا لے لی اس ڈائری میں میرے شب و روز دفن تھے میں نے ڈائری کھولی اور اپنا ماضی پڑنے گی کہ اچانک ٹھٹھک کر رک گئیمیں نے دیکھا کہ ٹمس کا لکھا ہوا کاغذ پڑا ہوا ہے میں نے پڑھنا شروع کر دیا جملے انسان خواہ کتنا ہی اپنے جذبات اور احساسات کا گلا گھونٹ دے لیکن کہیں نہ کہیں وہ بار جاتا ہے میں نے اپنے جذبات کی قربانی دے ڈالی لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ تم نے ہمارے رشتے کو پامال کر دیا گند گی کو چاہے جتنا بھی چھپاولیکن اس کی بد بو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے گناہ کی دلدل میں پھنسنے سے پہلے میر انہیں تو اپنے بچوں کا ہی خیال کر لیتی میں نے اپنی خواسات کی قربانی اس لیے نہیں دی تھی کہ تم مجھے زمانے کی نظروں میں رسوا کر ڈالو تم نے تو مجھ سے وعدہ کیا تھ
کہ تم میراساتھ دو گیاگر میں آج زندہ ہو تا تو مجھے دو قتل کرنے پڑتے ایک تمہارا اور ایک اس آشناکی اور اس طرح میں تو جیل جاتا ہیں لیکن میرے خاندان کی عزت بھی خاک میں مل جاتی اس لئے میں خود کشی کر رہا ہوں افسوس تم میری محبت کی قدر نہیں کر سکی خط پڑھتے ہیں میری آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بن گئی میری بچی مجھ سے لپٹ گئی اور کہنے لگی ماما آپ کیوں رو رہی ہو میں اسے کیا بتاتی کہ میں ہی ٹمس کی قاتل تھی پتا نہیں ٹمس کو میرے گناہ کا علم کیسے ہو گیا کاش کے میں بھی ٹمس کی طرح قربانی دے سکتی کاش کہ میں جذبات کے بہاؤ میں نہ بہتیال اور نہ ہی اپنے کزن کی طرف بڑھتی میں سٹمس کی قبر پر بیٹھی رور ہی تھی کہ ایک خیال نے میرا دماغ مفلوج کر دیا کہ میرے اندر پرورش پانے والا گناہ کا بچہ جب اس دنیا میں آۓ گا تو کیا اس کا باپ مس کہلائے گا کیانٹس کر و یا بر داشت کر سکے گی میں نے اس گناہ کی نشانی کو ہمیشہ کیلئے ختم کر ڈالا آج سوچتے ہو کہ میں نے اس کی قربانی کا کیاصلہ دیا یہ کہتے کہتے جمیلہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں گو کہ میرے اس گناہ کا آج تک کسی کو پتہ نہ چل سکا
مگر میر اضمیر مجھ کو ہر لحہ ملامت کر تا ہے اپنے اس گناہ کا اعتراف آج نہ کرتی تو شاید میرا دماغ پھٹ جا تامیری یہی التجا ہے خدارا اپنے نفس کے بہکاوے میں آکر اپنے خوبصورت رشتوں کو پامال مت کریں ورنہ ساری زندگی اذیت کے ساتھ گزارنی پڑے گی میں نے بھی کب کی خودکشی کر لی ہوتی اگر میرے بچے نہ
Sharing Is Caring!