Urdu News

All about islamic and Urdu Stories

میں ہسپتال میں نرس تھی ایک ان پڑھ عورت مجھے ڈاکٹر سمجھ کر بولی اگر

میں ہسپتال میں نرس تھی ایک ان پڑھ عورت مجھے ڈاکٹر سمجھ کر بولی اگر

میں ہسپتال میں نرس تھی ایک انپڑھ عورت میرے سفید کپڑے دیکھ کر مجھے ڈاکٹر سمجھ کر بولی اگر میرے دیور کا علاج کر دو تو تمہیں دس لاکھ دوں گی مجھے بہن کی شادی کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے میں حجٹ سے مان گئی اور جب رات ہستپال کے بعد اس کے گھر گئی تو وہ مجھے دیور کے کمرے میں لے گی لیکن اس وقت جان نکل گئی جب میری نظر ۔ ۔ میں ایک

دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹنے میں مصروف تھی جب کہ میری اور میرے جیسی باقی نرسز کی تنخواہ واجبی سی تھی۔ یہاں تک کہ ہمارا گزر بسر بھی بڑی مشکل سے ہو تا تھا مگر میں اس تنخواہ میں بھی راضی تھی کیوں کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہو تا ہے۔ آج سے چند ماہ پہلے تو میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے اس لیے میں اپنی روزی کو حلال کرنے کے لیے سارا دن انتھک

محنت کرتی تھی۔ مریضوں کی ساتھ کھلتگی کے ساتھ پیش آتی تھی۔ ہر وارڈ کے بھاگ بھاگ کر چکر لگاتی تھی کہ کہیں کسی مریض کو میری ضرورت نہ ہو ۔ سارادن کے کام کے بعد میں اتنی تھک جاتی تھی کہ دل چاہتا تھا کہ جلدی سے رات ہو جاۓ اور میں اپنے بستر پر لبی تان کر سو جاؤں مگر جب میں گھر لوٹتی تو میری نیند غائب ہو جاتی تھی۔ میں ساری ساری رات بھنگی روح کی

طرح گھر میں یہاں وہاں پھر تی رہتی تھی۔ آئینے کے سامنے کھڑی ہو جاتی تو آنکھوں سے آنسوں گرنے لگے تھے۔ میں خود سے سوال کرتی کہ کیا یہ تم ہی ہو سدرہ ؟ تم تو اپنے باپ کی لاڈلی تھیں پھر تمہاری یہ حالت کیسے ہو گئی؟ دراصل میں شروع سے بہت ذہین و فطین بچی تھی۔ والدین نے سکول میں داخل کروایا تو میں ہر جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کرتی تھی۔ میرے

سکول کی ٹیچر ز مجھ سے بہت محبت کیا کرتی تھیں۔ میں جوں جوں بڑی ہوتی گئی ننھی ننھی پہلیوں پلکوں پر خواب سجانے لگی تھی۔ میں نے میٹرک کے امتحانات جب امتیازی نمبروں سے پاس کیسے تو میں نے گھر میں حکم نامہ جاری کر دیا تھا کہ میں نے بڑی کو کر ڈا کٹر ہی بننا ہے۔ ابو بھی میری ہاں میں ہاں ملاتے جاتے تو امی ابو کو ٹوک دیا کرتی تھیں۔ کہتی تھیں افضل اپنی بچی کو اتنے

بڑے خواب مت دکھاؤ ہماری حیثیت اتنی نہیں ہے کہ اپنی بیٹی کی ڈاکٹر بنا سکیں جب ابوائی کی بات سن کر سخت ناراض ہو جایا کرتے تھے کہتے تھے کہ ابھی سے اس طرح کی باتیں مت کرومیری بیٹی کے ننھے سے ذہن پر بوجھ مت ڈالو جب وقت آۓ گا تب دیکھی جاۓ گی مگر ابو کو یہ نہیں پتہ تھا کہ اتنی جلدی وقت آ جائے گا۔ میں اب میڈ یکل کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی۔

میڈیکل کالج کی فیس کے متعلق سن کر ہی کانوں کو ہاتھ لگ گئے تھے پھر مجھ سے چھوٹی اقصی بھی اب ساتو میں جماعت میں ہو چکی تھی۔ امی بہت پریشان تھیں کہ نا جانے اب کیا ہو گا تو ابو بولے نیک بخت تم فکر کیوں کرتی ہو میں اپنے اور اپنی بچی کے خواب مرنے نہیں دوں گا۔ ابو نے وقت آنے پر میرے لیے اپنی زمین کا وہ چھوٹا سا ٹکڑ انچ دیا تھا جو انہیں وراثت میں ملا تھا۔

ظاہری سے بات ہے امی بہت ناراض ہوئیں تھیں کہنے گی افضل یہ زمین کا ٹکڑا تو میں نے اپنی بچیوں کے جہیز کے لیے سوچ کر رکھا تھا ان بیچاروں کا کونسا کوئی بھائی ہے جو ان کے لیے جہیز بناتا پھرے گا ہمیں ہی ان کے آنے والے مستقبل کے متعلق سوچنا ہو گا۔ امی کی باتیں سن کر ابو بولے تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اپنی بچیوں کی شادیاں ایسے لالچی گھرانوں میں کروں گا جو

مجھ سے جہیز کا تقاضہ کر یں گے ؟ میں اپنی بیٹیوں کو پڑھا لکھا کر اس قابل بنادوں گا نہ ان کے لیے اچھے اچھے رشتوں کی لائن لگ جاۓ گی۔ یہ توا بو کی باتیں تھیں مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میں ڈاکٹر بننے کے مراحل تیزی سے طے کر رکھی تھی مگر پھر اس کے لیے مزید پیسے بھی در کار ہوتے تھے۔ میری ڈاکٹری کی تعلیم کو اب فقط دو سال رہ گئے تھے تب ایک رات ابو

سوۓ تو ہمارے لاکھ جگانے پر بھی نہ اٹھے تھے ۔ ہم پر تو غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا تھا۔ امی ابو کی میت کو بار بار ہلا کر کہتیں افضل تم مجھے اتنابڑاد ھو کہ نہیں دے سکتے ۔ میں تن تنہا اپنی بیٹیوں کو کیسے سنبھالوں گی۔ سدرہ کو ڈاکٹر بنانے کی تمہاری خواہش کیسے پوری کروں گی۔ ابو تو اگلے سفر پر روانہ ہو گئے تھے پیچھے ہم غمزدہ سے رہ گئے تھے۔ ابو کے مرنے کے بعد ہمیں اپنے آس پاس کی

کچھ ہوش نہ تھی۔ دن رات غم میں ہی گزرتے تھے۔ پھر ابو کے چالیسویں کے بعد امی نے مجھے کہا کہ تم اپنی پڑھائی جاری رکھو تو میں پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی میں بولی امی جس دن ابو کا انتقال ہو اہے اس دن میں ان سے اپنی تعلیمی اخراجات کے لیے کچھ رقم ما نگلنے والی تھی۔ لیکن ابو کے انتقال کے بعد تو پتہ چلا کہ ہمارے پاس تو پیسے میں ہی نہیں ہے۔ امی پیوں کے بغیر تعلیم

مکمل نہیں کی جاسکتی۔ یوں میں منزل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد چھوۓ بغیر ہی واپس لوٹ آئی تھی۔ میری چھوٹی بہن اقصی کی بھی پڑھائی بیچ میں ہی رہ گئی تھی۔ ان حالات سے نکلنے کا راستہ امی کو یہ ہی سوجھا تھا کہ وہ ہم دونوں بہنوں کی شادی کر دینا چاہتی تھیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس لیے امی نے ادھر ادھر رشتوں کے لیے کہہ دیا تھا۔ شروع شروع

میں تو میرے لیے رشتوں کا انبار لگ گیا تھا کیوں کہ سب ہی تو جانتے تھے کہ سدرہ ڈاکٹر بننے والی ہے ایک ڈاکٹر لڑکی کو تو ہر کوئی بہو بنانا چاہتا ہے مگر جب وہ لوگ ہمارے گھر آکر ہمارے حالات دیکھ لیتے تو پھر پلٹ کر بھی نہ پوچھتے تھے۔امی نے جتنی بھی عور توں کو میرے رشتے کے لیے کہا تھاسب سے ایک ہی بات کہی تھی کہ بہن

آج کل کے لوگ ایسی لڑکیوں کو اپنی بہو بنانا پسند کرتے

ہیں جو اپنے ساتھ بھاری چیز لے کر آئیں۔ سب لوگ تو تم لوگوں کے حالات سے واقف ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ انہیں اس گھر سے جہیز کے نام پر کچھ نہیں ملے گا۔ جب امی بہت ناراض ہوئیں تھیں۔ وہ مجھ سے کہنے لگی سدرہ کاش تیرے باپ نے میری مان لی ہوتی۔ اس نے زمین فروخت نہ کی ہوتی۔ سدرہ دیکھو تمہاری

پڑھائی بھی تو ادھوری رہ ہی گئی ہے نہ۔ آج اگر وہ زمین ہوتی تو میں فروخت کر کے تم دونوں بہنوں کی شادیاں دھوم دھام سے کرتی۔ خیر گھر میں غربت بہت بڑھ گئی تھی یہاں تک کہ گھر میں کھانے کے بھی لالے پڑ چکے تھی۔ اب امی کو مجبور لوگوں کے گھروں میں کام کرنا پڑا تھا۔ یہ اذیت ہم دونوں بہنوں کے لیے بہت زیادہ تھی۔ پہلے ہمارے گھر رشتے آ جایا کرتے تھے یہ اور

بات تھی کہ بعد میں انکار ہو جا تا تھا مگر اب تو ایک کام کرنے والی عورت کے گھر رشتے آناہی بند ہو گئے تھے۔ میرے بالوں میں چاندی اترنے لگی تھی۔ گزر تاوقت اپنے نقش میرے چہرے پر ثبت کر تا جارہا تھا۔ میری آنکھوں کے گرد ہلکے تھے تو چہرے پر جھریاں۔اب میں اپنی زندگی سے اس قدر تنگ آچکی تھی کہ جی چاہتا تھا کہ موت کو لگے لگالوں۔ تب امی کی اچھے وقتوں کی

دوست ہمارے گھر آگئی تھی۔ اس نے جب ہمارے حالات دیکھے تو دنگ رہ گئی تھی۔ تب اس نے کہا کہ میں نے تو سنا تھا کہ سدرہ ڈاکٹر بن رہی ہے۔ امی نے اس سے کچھ نہ چھپایا اور ساری کہانی سنادی۔ تب امی کی سہیلی بولی کہ کیا ہوا اگر اپنی سد رو ڈا کٹر نہیں بن پائی تو۔ میں اس کے ایک ہسپتال میں نرس لگوادیتی ہوں۔ آنٹی کی بات سن کر میں جی اٹھی تھی۔ میں بولی جی جی

آنٹی اگر آپ میرے لیے ایسا کر دیں گی تو میں آپ کا احسان ساری زندگی میں بھولوں گی اور یوں چند مراحل سے گزرنے کے بعد میں ایک پرائیوٹ ہسپتال میں نرس لگ چکی تھی۔ میرے لیے یہ ہی غنیمت تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ جیسے میں نے اپنے خواب کی تعبیر پالی ہو ڈاکٹر بن کر میرا اصل مقصد تو خلق خدا کی مدد کرناہی تھانہ سو وہ میں یوں بھی کر سکتی تھی۔ میں نے امی کو

لوگوں کے گھروں میں کام کرنے سے روک دیا تھا۔ گھر کے حالات اچھے ہونے لگے تھے۔ایک دن میں گھر پہنچی تو ایسا محسوس ہوا جیسے گھر میں کسی کہ دعوت رکھی گئی ہو۔ میں نے امی سے استفسار کیا تو امی کے چہرے کی رنگت بدل گئی تھی۔ انہوں نے نظر میں جھکالی تھیں پھر کہنے لگی سدرہ آج اقصی کو لڑکے والے دیکھنے آۓ تھے۔ مجھے رشتے کرانے والی عورت نے مشورہ دیا تھا کہ

گزر جاۓ اس لیے پہلے تم اقصی کی شادی کر دو بعد میں پھر آرام سے سدرہ کے لیے رشتہ ڈھونڈتی رہنا۔ میں چپ چاپ امی کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی تھی۔ میں مناسب الفاظ کی تلاش میں تھی جب امی بولیں بیٹی مجھے اللہ سے بھی ڈر لگتا ہے اگر اس نے قیامت کے روز مجھ سے پوچھ لیا کہ تم ایک بیٹی کی خاطر دوسری بیٹی کا حق کیوں مارتی رہی ہو تو پھر میں کیا جواب دوں گی۔ میری

چلتی ہوں کل پھر آؤں گی ۔ فضیلہ نے اپنے ڈرائیور سے کہہ کر میرے لیے گاڑی نکلوادی تھی۔ وہ ہی مجھے میرے گھر تک چھوڑ کر آیا تھا۔ میں گھر پہنچی تو امی بولیں تم اتنی جلدی آ گئی ؟ میں بولی بس اس عورت کی ساس کو دو او غیر وہی تو دینا تھی اس لیے میں آگئی ہوں۔ امی کو بھی زر اطمینان ہو گیا تھا۔ اگلے دن جب میں ہسپتال آئی تو اپنے وارڈ کی مشہور ماہر نفسیات کے

یوں دو بچھڑے عاشق مل گئے تھے۔ اقصی اب قیس کا علاج ملک کے بہترین معالج سے کر وار ہی ہے وہ بہتر ہو رہا ہے جب کہ دوسری طرف ہمارے ہسپتال میں ہی کام کرنے والے ایک میل نرس نے مجھے پسند کر لیا اور اپنی بھابی کے ہاتھ شادی کا پیغام پہنچادیا تھا۔ وہ اکیلا رہتا تھا اس لیے اس کا اصرار تھا کہ میری امی بھی ہمارے ساتھ ہی رہیں گی اور یوں میری بھی شادی ہو گی اور مجھ

ساتھ ہی رہیں گی اور یوں میری بھی شادی ہو گی اور مجھ پر بھی خوشیوں کے در وا ہو گئے تھے۔

Sharing is caring!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *