دیکھو رفیق یہ ٹھیک نہیں ہے اب میری شادی ہو چکی ہے

میرا نام احسن ہے اور میں وسطی پنجاب کے ایک گاؤں میں رہتا ہوں. میرے گھر میں میرے علاوہ میری ماں باپ ایک بڑا بھائی ایک بابی نبیلہ اور دو بہنیں رہتی ہیں بھائی محسن لاہور میں پرائیویٹ نوکری کرتے ہیں بڑی بہن عظمیٰ بھی نبیلہ کی ہم عمر ہیں. ان کی منگنی میرے چچازاد نوید سے ہو چکی ہے. چھوٹی بہن ثوبیہ ایف ایس سی کر رہی ہے اور میرے ساتھ موٹر سائیکل پر شہر جاتی ہے۔ محسن بھائی مہینے میں ایک بار گھر آتے ہیں۔ ان کی شادی کو 2 سال ہو گئے ہیں۔ شادی کے موقع پر وہ تقریباً ڈیڑھ ماہ کی چھٹی لے کر آئے تھے اسکے بعد انہیں نوکری پر جانا پڑا. یہ تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے۔ گرمیوں کے دن تھے ہم دو پہر کو سوئے ہوئے تھے کہ میں واش روم جانے کیلئے اٹھا جب محسن کے کمرے کے قریب سے گزرا تو دیکھا کہ بھائی محسن اور نبیلہ کے کمرے سے کچھ آوازیں آرہی تھیں. میں قریب جاکر کھڑکی کی ایک سائیڈ جو کہ ٹوٹی ہوئی تھی
وہاں سے اندر دیکھنے لگا تو ایک حسین منظر میرا منتظر تھا۔ اندر دیکھا تو بھائی اور نبیلہ دونوں کے لباس آدھے اترے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ شدت سے ٹورنامنٹ کر رہے تھے محسن کا ہاتھ نبیلہ کی پیچھے تندور پر تھا جبکہ نبیلہ نے اسے قس کر جکڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد محسن نے اسے کہا تیار ہو جائو تو نبیلہ بولی ابھی نہیں رات کو کریں گے مگر محسن نہ مانا اور اسے لٹا کر لباس نکال دی اپنا طوطا اس کی بلی کے صوراخ پر رکھا اور ایک زور کا گیر مارا جس سے طوطا آدھا اندر چلا گیا۔ نبیلہ مزے کی شدت سے تڑپنے لگی اس نے تقریباً پندرہ منٹ ٹورنامنٹ کی اور بلی کے اندر ہی کولڈ ڈرنک چھوڑ دیا۔ محسن اور نبیلہ کی ٹورنامنٹ دیکھ کر میرا برا حال تھا میں ہاتھ سے کھیل رہا تھا. ٹورنامنٹ ختم ہونے کے بعد نبیلہ نے جلدی سے لباس لئے اور باہر کا رخ کیا میں جلدی سے قریبی ہاتھ روم میں چلا گیا. لیکن نبیلہ نے مجھے اندر جاتے دیکھ لیا. اس واقعے کے دو دن بعد بھائی لاہور چلے گئے.
میرا نبیلہ کو دیکھنے کا انداز ہی بدل گیا جب بھی وہ میرے سامنے آتی میرے دماغ میں وہ سارا سین چلنے لگتا. شاید بابی نے بھی مجھ میں اس تبدیلی کو محسوس کر لیا تھا لیکن وہ بولی کچھ نہیں. میرا دل کرتا تھا کہ میں نبیلہ کو پکڑ کر کھا جاو اس واقعے سے تقریباً ایک ماہ بعد کی بات ہے ایک دن میں نبیلہ اور ثوبیہ نے کچھ خریداری کیلئے شہر جانا تھا۔ زیادہ افراد اور خریداری کے سامان کی وجہ سے ہم نے پبلک ٹرانسپورٹ سے جانے کا فیصلہ کیا شہر ہمارے گاؤں سے 15 کلو میٹر دور تھا ہم ہائی ایس میں بیٹھ کر شہر پہنچ کئے۔ سارا دن خریداری میں مصروف رہے۔ واپسی پر دیر ہو گئی اور پائی ایس بند ہو گئیں، تھوڑی دیر بعد ایک بس آئی جو کہ کھچا میچ بھری ہوئی تھی ہم بھی موقع کی مناسبت سے اس میں سوار ہو گئے. سیٹ ملنا تو دور کی بات کھڑے ہونے کی جگہ نہیں مل رہی تھی. میں دوسرے لوگوں کو نبیلہ اور ثوبیہ سے دور رکھنے کیلئے ان کے قریب ہو گیا. نبیلہ ثوبیہ اور میرے درمیان اس طرح کھڑی تھی
کہ بابی کا منہ ثوبیہ کی طرف اور متندور میری طرف تھی دھیرے دھیرے میرا طوطا نبیلہ کی پیچھے کی دراڑ میں جالگا جس سے مجھے لطف آنے لگا یہ پہلا موقع تھا جب نبیلہ میرے اتنے قریب آئی تھی نرم نرم اوزار نے اتنا مزہ دیا کہ میں آہستہ آہستہ ہلنے لگا۔ بس کی بریک
اور لوگوں کے دھکوں کا میں خوب فائدہ اٹھا رہا تھا۔ نبیلہ کو میں یہی شو کر رہا تھا کہ یہ سب بے دھیانی میں کر رہا ہوں میرا خود پر کنٹرول ختم ہو چکا تھا میرے دھکوں کی رفتار اتنی تیز ہو گئی کہ نبیلہ نے بھی محسوس کر لیا. اور اس نے پیچھے کو ایک طرف کرنے کی کوشش کی مگر بھیڑ کی وجہ سے نہ کر سکی۔ اسی دوران ہمارا سٹاپ آگیا اور ہم اتر کئے. اگلے دن میں کالج سے واپس آکر کھانا کھا رہا تھا کہ نبیلہ کمرے میں آئیں مجھے وہ کچھ سنجیدہ نظر آرہی تھیں۔ انہوں نے پوچھا احسن یہ کیا حرکت تھی میں نے کہا کیا باب؟ کل تم بس میں میرے ساتھ کیا کر نے رہے تھے میں نبیلہ کے لہجے کو دیکھ کر ڈر گیا
اور کہا کچھ نہیں۔ تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آئی؟ میں نے کچھ نہیں کیا لوگ دھکے دے رہے
تھے، دھکے میں اور جو تم کر رہے تھے اس میں فرق چھتی ہوں. سوری باب میں نے کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں کیا. تم نے برا کیا یہ کہہ کر نبیلہ چلی گئی۔ اس واقعہ کے بعد میں نبیلہ کے پاس جانے سے کتراتا رہا کیونکہ میں خوفزدہ تھا کہ کہیں وہ کسی کو بتا نہ دے۔ میں نہ صرف یہ کہ اس سے بولتا نہیں تھا بلکہ اس کے سامنے بھی نہیں جاتا تھا. ایک دن مجھے عظمیٰ نے بلایا اور کہا کہ گھر میں مہمان آرہے ہیں تم جلدی سے مجھے سامان لادو میں سامان لے کر آیا تو پتہ چلا کہ چچا چی زہرہ اور دوسرے لوگ گھر میں موجود تھے۔ اس وقت نبیلہ نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اس وقت ان کے لبو پر معنی خیز مسکان تھی انہوں نے پوچھا کہ تمہیں پتا ہے یہ لوگ کیوں آئے ہیں میں نے کہا نہیں تو اس نے مسکرا کر کہا یہ تمہاری منگنی کیلئے آئے ہیں. یہ سن کر میرا دل اچھلنے لگا میں نے جذبات میں نبیلہ کو زور کی جیھی ڈال لی
نبیلہ نے مسکراتے ہوئے مجھے خود سے دور کیا میں بہت خوش تھا کہ اب عالیہ میری بیوی بنے گی۔ عالیہ میرے چچا کی بیٹی تھی۔ میں نے ہمیشہ عالیہ کے ہی خواب دیکھے تھے۔ لیکن اس دن جو ہوا وہ میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا میں بہت خوش تھا کہ آج سے عالیہ میری بگر شام کو مجھے پتہ چلا کہ میری منگنی سمیرا سے کر دی گئی ہے. سمیرا بھی خوبصورت تھی مگر مجھے عالیہ پسند تھی۔ سمیرا نے اس دن کے بعد ہمارے گھر آنا بند کر دیا تھا۔ میں نے عالیہ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ مجھے ایک بہنوئی کی نظر سے دیکھتی تھی اور اس نے مجھ سے ہنسی مذاق شروع کر دیا. جیسے وہ میری سالی ہو میں نے بھی حالات سے سمجھوتہ کرنا شروع کر دیا۔ منگنی سے ایک مہینے بعد کی بات ہے نبیلہ نے امی سے مائیکے جانے کیلئے کہا تو امی نے مجھے کہا کہ میں اسے چھوڑ آئوں. ہم موٹر سائیکل پر روانہ ہوئے جب انکے گھر پہنچے تو مغرب کا وقت ہو گیا. نبیلہ کے گھر والوں نے مجھے روک لیا.
پتا نہیں رات کا کون سا پہر تھا میں واش روم جانے کیلئے صحن میں آیا۔ فارغ ہو کر کمرے میں جارہا تھا کہ برآمدے کی ایک سائیڈ پر میں نے ایک سایہ دیکھا. مجھے لگا کہ کوئی چور ہے. میں دبے پاؤں چلتا ہوا وہاں پہنچا تو مجھے دبی دبی آوازیں سنائی دیں اوٹ سے دیکھا تو نبیلہ اور اسکا کزن رفیق تھے. رفیق کا ایک بازو نبیلہ کی کمر میں اور دوسرا اسکے گال پر تھا۔ نبیلہ نے کہا دیکھو رفیق یہ ٹھیک نہیں ہے اب میری شادی ہو چکی ۔ رفیق لیکن میں کیا کروں تمہارے بغیر چین نہیں آتا. آج تھوڑا سا پیار کرنے دو. یہ کہہ کر اس نے نبیلہ کو بھرپور کس کی اور بانہوں میں لیا. مجھے یہ سب دیکھ کر بہت غصہ آرہا تھا. رفیق نے کس کرنے کے دوران نبیلہ کی پیچھے پر ہاتھ رکھ دیئے ا ہے۔
اور اسے دبانے لگا. پھر اس نے ایک ہاتھ لباس میں ڈال دیا اور نبیلہ کی پیٹھ پر پھیرنے لگا. پھر اس نے ایک گیند پر اپنا منہ رکھدیا. رفیق نے نبیلہ کی خوب بینڈ بجائے تقریباً تیس منٹ ٹورنامنٹ کے بعد وہ دونوں بے جان ایک دوسرے کے اوپر لیٹ کئے میں ایسے کھڑا تھا جیسے کسی نے مجھ پر جادو کر دیا ہو۔ مجھے نبیلہ پر بہت غصہ آرہا تھا مجھ سے مزید برداشت نہ ہوا اور میں وہاں سے کمرے میں آگیا۔ نبیلہ کا یہ ایک نیا روپ مجھے نظر آیا تھا مجھے ساری رات نیند نہیں آئی. صبح میں نبیلہ سے ملے بغیر وہاں سے نکل آیا