Urdu News

All about islamic and Urdu Stories

ایک خان صاحب کی بیوی نہایت حسین و جمیل تھی۔ خان صاحب اکثر سفر میں ہوتے تو ان کی بیوی

ایک خان صاحب کی بیوی نہایت حسین و جمیل تھی۔ خان صاحب اکثر سفر میں ہوتے تو ان کی بیوی

سبحان پور میں ایک خان صاحب تھے۔ ان کی بیوی نہایت حسین و جمیل تھی۔ خان صاحب اکثر سفر میں ہوتے تو ان کی بیوی خط لکھوانے کے لیے مسجد کے مولوی صاحب کو بلا لیتی۔ وہ ہمیشہ پردے میں رہ کر ہی خط لکھواتی اور مولوی صاحب کو کوئی ڈش وغیرہ کھلا کر واپس بھیج دیتی۔ ایک دفعہ وہ نیک بخت پردے میں بیٹھی خط لکھوا رہی تھی کہ اچانک ہوا نے پردہ اٹھا دیا اور مولوی صاحب کی نگاہ اس پردہ نشین سے دوچار ہو گئی۔ پھر کیا ہوا مولوی صاحب کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ اس کے بعد اس خاتون نے خط کا مضمون بتانا شروع کیا تو مولوی صاحب لکھنا بھول کئے۔ بار بار یہی کہتے کہ کیا لکھوں؟ وہ خاتون اب جو کچھ بھی کہتی اس کے جواب میں مولوی صاحب کی زبان سے یہی جاری رہا کہ کیا لکھوں آخر وہ خاتون سمجھ گئی کہ یہ بیچارا مولوی اس کے حسن کی تاب نہ لا سکا اور عشق کے شاہین نے طائر عقل کے پر نوچ لیے ہیں۔ اس نے اپنی کنیز کو اشارہ کیا کہ مولوی صاحب کو جلدی سے مسجد میں پہنچا

دے۔ کنیز مولوی صاحب کو مسجد میں چھوڑ گئی۔ نماز کا وقت آید مؤذن نے اذان دی۔ مولوی صاحب امامت کرنے لگے اور سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد شروع کر دیا کیا لکھوں کیا لکھوں؟ لوگوں نے سوچا مولوں پر شاید پاگل پن کا دورہ پڑا ہے۔ کسی نے حکیم کو بلایا اور کوئی شربت صندل کے کر مولوی صاحب کی خدمت میں لگ گیا۔ دوسرے دن صبح ناشتہ کرنے کے بعد مولوی صاحب قلم دوات لے کر بیٹھ کئے اور ہاتھ میں قلم لے کر پھر ورد کرنا شروع کر دیا کہ :

کیا لکھوں… کیا لکھوں ؟” مؤذن نے پھر لوگوں کو اکٹھا کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے کہ وہ کسی بڑے شہر میں اپنا علاج کروانے کے لیے جا رہے ہیں اور مسجد کے معاملات کو مؤذن سنبھالیں گے۔ اس جنون کی حالت میں بھی وہ اس راز کو افشا ہونے سے بچانے کی کوشش میں تھے۔ دس میل دور جنگل میں ایک خانقاہ تھی جہاں ایک ملنگ رہا کرتا تھا۔ مولوی صاحب شہر تو نہ کئے اور اس خانقاہ پر پہنچ کر وہیں اپنا ٹھکانہ بنا لید نہ بھوک لگتی نہ چین آند اندر ہی اندر گھلنے لگے اس

طرح تین ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ خاں صاحب سفر پہ تھے تو بیگم نے مولوی کو بلاوا بھیجا۔ اس مرتبہ مؤذن جب خاں صاحب کے گھر پہنچا تو بیگم نے پوچھا کہ وہ پرانے مولوی صاحب کدھر ہیں؟ مؤذن

نے تمام ماجرا بیان کر دیا کہ وہ پاگل ہو کئے تھے۔ ہر وقت: کیا لکھوں کیا لکھوں؟” کہتے رہتے تھے۔ آخر وہ یہ بستی چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں۔ عشق پر کبھی کبھی حسن کو ترس آ جاتا ہے۔ بیگم نے خطوط تو کوئی نہ لکھوایا لیکن مؤذن

کو بھاری رقم دے کر کہا کہ آپ جائیں اور مولوی صاحب کو ڈھونڈ کر لائے کہ کہاں ہیں۔ مؤذن کو کچھ کچھ شک ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ وہ ایک ہمدرد انسان تھا اور مولوی صاحب کے اس پر بہت احسانات تھے۔ وہ خاموشی سے مسجد میں لوٹا اور مولوی صاحب کی تلاش کے لیے سوچنا شروع کر دیل ایک مہینہ اس نے مولوی صاحب کی تلاش کے لیے دن اور رات ایک کر دیئے۔ آخر بہت مشکلوں کے بعد اسے پتہ چل گیا کہ مولوی صاحب فلاں فلاں جگہ ایک

خانقاہ میں وقت گزار رہے ہیں۔ ایک دن فجر کی نماز پڑھانے کے بعد مؤذن نے اس خانقاہ کی طرف سفر شروع کی۔ سارا دن چلتے چلتے تھک گیا اور آخر پچھلے پہر وہ اس جگہ پہنچ گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ملنگ ایک تازہ قبر پر پانی چھڑک رہا ہے۔ ” یہاں مولوی صاحب آئے تھے؟“ مؤذن نے پوچھا ”یہ پڑے ہیں!“ ملنگ نے قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کیا ہوا؟ بس فنا ہو گئے ہیں۔“ ”وہ کیسے؟» «عشق کی

وراثت منصور یا مجنوں کے لیے ہی نہیں۔ یہ تحفہ اوروں کو بھی مل سکتا ہے شرط یہ کہ وہ اس کے اہل ہوں۔“ شاید انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ “ مؤذن نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ملنگ جلال میں آگیا۔ بولا: «عشق حقیقی ہو یا جلال میں آگیا۔ بولا:

مجازی، اس کے آہند ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ منصور نے انا الحق کا نعرہ لگایا تو مجنوں نے سہیلی کو بدنام کر دیا مولوی تو ان دونوں سے بازی لے گی۔ اس نے تو محبوب کا نام ہی نہیں لیا ”مولوی کا جنازہ کس نے پڑھایا؟ ” تم ملاں کے ملاں ہی رہے۔“ ملنگ چلاید ”ارے مولوی صاحب کا جنازہ عام لوگوں نے نہیں پڑھایا کیا تم نے نہیں سنا کہ اگر کوئی عشق میں مبتلا ہو جائے، راز افشا نہ کرے، دوسرے کو بدنام نہ کرے اور اگر اس گھٹن میں مر جائے تو وہ شہید ہے۔ ” مؤذن نے اپنی پگڑی اتر کر اپنے گلے کے ارد گرد لپیٹ لی اور واپسی کا سفر شروع کر دیا ”میں کسی سے کچھ

بھی نہیں کہوں گا۔ “ ہر قدم پر وہ یہی دہرا رہا تھا۔ (کتاب ” چھپن چھپائی“ سے اقتباس)

Sharing is caring!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *