آج مجھے اپنی زندگی کی پہلی کمائی ملنے والی تھی میں نے ساری رقم

گھر میں میرے لئے پر تکلف بعام کا انتظام کیا گیا تھا ۔ بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر لذیذ کھانوں کے مزے اٹراۓ اور سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے رضائی میں گھس گیا ۔ انکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں کہ اچانک اس بیوہ عورت اور اسکے یتیم بچوں کا خیال آیا ۔ ارادہ کیا کہ ابھی جاؤں اور سامان پہنچا آؤں طبیعت میں سستی تھی سوچاکل پہنچادوں گا ۔ لیکن بعد میں خیال آیا میں تو پر تکلف کھانے کامزالے چکا
کہیں وہ بچے بھوکے نہ ہوں . اس وقت لحاف سے نکلاد ایک چادر اوڑھی تھیلا کاندھے پر رکھا اور اسکے گھر کی طرف نکل پڑا ۔ شدید سردی تھی دھند بھی زیادہ تھی اور بھاری تھیلا اٹھانے میں بھی کچھ دقت ہورہی تھی ، ایک دور محلے میں اس عورت کا گھر تھا ۔ اسکا شوہر مزدوری کرتا تھا اور چار بچے تھے ۔ ایک ناگہاں حادثے میں شوہر کی موت ہو گئی اور اب اسکے یتیم بچوں پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہ تھا ۔ قسمت بھی بہت ستم ظریف ہے ۔
و کبھی ایسے لوگوں کو لپیٹ میں لے لیتی ہے جنکا خدا کے سوا کوئی نہیں ہوتا . خیالات کا اک سمندر لئے اس بیوہ عورت کے کے باہر پہنچا ۔ گھر کیا تھا بلکہ ایک خرابہ تھا ۔ ایک کمرہ چھوٹا سا صحن اور ایک خمیدہ سی چار دیواری تھی ۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک 5 سالہ بچی باہر آئی جسکے چہرے پر پریشانی خوف اور بھوک نمایاں تھی ۔ میں اسکے چہرے کو تکے جارہا تھا اور دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ خدا کسی بچے پر ایسا وقت نہ لائے ۔
اس بچی نے ایک پرانا سا جوڑا پہنا ہوا تھا اور ایک شدید سردی میں ایک پھٹی پرانی جرسی پہنی ہوئی تھی ۔ پاؤں برہنہ تھے وہ بھی اس سردی میں کہ پیروں کو جما کہ رکھ دے . میں نے کچھ کہے سنے بغیر راشن والا تھیلاز مین پر رکھا ۔ تھیلے کو دیکھتے ہی وہ بولی ” کیا اس میں کھانے کا سامان ہے ؟ ” یہ سننا تھا کہ میں حیران ہو گیا ۔ ایک بار پھر اس نے یہی سوال دہرایا . میں نے مثبت انداز میں سر ہلایا ۔ وہ نیچی خوشی کے مارے چیختی چلاتی ماں کہ طرف بھاگی
اور یہ کہے جارہی تھی ” امی فرشتہ آگیادای فرشته آگیا دامی فرشته آگیا اور پھر دو اور چھوٹے چھوٹے بچے خوشی مارے دروازے پر دوڑے چلے آۓ . کبھی مجھے دیکھتے کبھی اس تھیلے کو اور خوشی سے لوٹ پوٹ ہوئے جارہے تھے ۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے ہونٹ کپکپارہے تھے اور جسم میں ایک سرد لہر سی دوڑ رہی تھی . خدایا یہ کیا ماجرا ہے ؟ کیوں یہ بچے مجھ گناہگار کو فرشتہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔ انہی سوچوں میں غلطان تھا
کہ ایک خاتون جو انکی ماں تھی دروازے پر آئی اور دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہو کر روہانسی آواز میں یہ کہنے لگی ۔ میرے بچے دو دن سے بھوکے تھے . غیرت گوارا نہیں کرتی کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤں . میرے مرحوم شوہر بھی محنت مزدوری کرتے تھے مگر کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلا یا تھا ۔ ان کے چلے جانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ۔ رشتہ داروں نے ہاتھ ھینچ لئے ہیں اور محلے والے بھی مدد نہیں کرتے ۔
مگر کبھی کبھی آپ جیسے نیک دل لوگ مدد کر دیتے ہیں . میں دو دن سے بچوں کو یہ کہہ کر بہلارہی تھی کہ ایک فرشتہ آۓ گا اور ہمارے لئے کھانالے آۓ گا ۔ اسی لئے یہ آپ کو فرشتہ سمجھ بیٹھے ہیں . اس عورت نے خدا کے حضور شکرانے کے چند کلمات ادا کئے مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں اور شکر یہ ادا کیا ۔ میں وہاں سے واپس ہو لیا ۔ آنسور کنے کا نام نہیں لے رہے تھے . زندگی میں بھی خود کو اتناپر سکون محسوس نہیں کیا جتنا آج کر رہا تھا ۔
اور اندازہ لگایا کہ ایک بے بس انسان کی مدد کرنے سے جو روحانی سکون ملتا ہے وہ کسی اور کام میں نہیں ، ہمارے ارد گرد ایسے بہت سے غربا ہوتے ہیں جو مستحق ہونے کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے . مگر مدد کرنے والے ہاتھوں کے منتظر ضرور رہتے ہیں ۔ دو وقت کی روٹی ہی ان کا کل جہاں ہوا کرتی ہے . ایسے لوگوں کی مدد کرنی چاہیے چاہے وہ ایک وقت کا کھانا ہی کیوں نہ ہو ۔ گھر آیا تو ماں نے پوچھا بیٹا اتنی رات کہاں چلے گئے تھے بنا بتاۓ ؟ ” میں بے ساختہ بولا ” فرشتہ بنے گیا تھا “