نامرد ایک خوبصورت عورت نے بھری عدالت میں

میرا شوہر نامرد ہے اور مجھے خلع چاہیے ۔ وہ تنسیخ نکاح کا عام سا کیس تھا۔انچی پڑھی لکھی فیملی تھی ۔ دو پیارے سے لیکن خاتون بضد تھی کہ 26 چے تھے کیوٹ اور معصوم ۔ اسکو ہر حال میں خلع چاہیے ، جبکہ میرا موکل مدعا علیہ ( شوہر ) شدید صدمے کی کیفیت میں تھا ۔ ۔ ۔ نج صاحب اچھے آدمی تھے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ میاں بیوی کو چیمبر میں لیجا کر مصالحت کی کوشش کرلیں شاید بات بن جاۓ ۔ مد عاعلیہ
( شوہر ) کا وکیل ہونے کے ناطے اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق میں نے فوری حامی بھر لی ۔ جبکہ مدعیہ ( بیوی ) کے وکیل نے اس پر اچھا خاصہ ہنگامہ بھی کیا لیکن خاتون بات چیت کے لئے راضی ہوگئی ۔ چیمبر میں دونوں میاں بیوی میرے سامنے بیٹھے تھے :۔ ” ہاں خاتون ۔ ! آپ کو اپنے شوہر سے کیا مسئلہ ہے ” ؟ ۔ ۔ ” وکیل صاحب بی ۔ یہ شخص مردانه طور پر کمزور ہیں ” ۔ ۔ ۔ میں اسکی بے باکی پر حیران رہ گیا ۔ میرے منہ سے ایک موٹی سی گندی سی گالی نکتے نکلتے رو گئی
البته منہ میں تو دے ہی ڈالی ۔ ویسے تو کچہری میں زیادہ تر بے باک خواتین سے ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن اس خاتون کی کچھ بات ہی الگ تھی۔اسکے شوہر نے ایک نظر شکایت اس پر ڈالی اور میری طرف امداد طلب نظروں سے گھورنے لگا ۔ میں تھوڑا سا جلا گیا کہ کیسی عورت ہے ذرا بھی شرم حیا نہیں ہے ۔ ۔ بہر حال میں نے بھی شرم و حیا کا تقاضا ایک طرف رکھا اور تیز تیز سوال کرنا شروع کر دیے
جب اس سے پوچھا : ۔ ۔ ” کیا اس کا اپنے مرد سے گزارہ نہیں ہوتا ” ؟ ۔ ۔ تو کہتی ہے کہ : ۔ ” ماشاءاللہ دو بچے ہیں ہمارے ۔ یہ جسمانی طور یہ تو بالکل ٹھیک ہیں ” ۔ ۔ ۔ ” تو بی بی پچر مردانہ طور پر کمزور کیے ہوۓ ” ؟ ۔ ۔ میں نے استفسار کیا ۔۔۔ وکیل صاحب ! میرے بابا دیہات میں رہتے ہیں اور زمینداری کرتے ہیں ۔ تم دو بہنیں ہیں اور میرے والد ہمیں بھی ” دھی رانی ” سے کم بلایا ہی
اور یہ غصے میں مجھے ” کنجری ” کہتے ہیں ۔ ۔ um ] وکیل صاحب ! مرد تو وہ ہوتا ہے نا جو کنجری کو بھی اتنی عزت دے کہ وہ کنجری نہ رہے اور یہ اپنی بیوی کو ہی – Urdu Mind کنجری کہہ کر پکارتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہ کوئی مردانہ بات تو نہیں ہوئی نہ ۔ ۔ ۔ ؟؟ : — وکیل صاحب اب آپ ہی بتائیں کیا یہ مردانہ طور پر کمزور نہیں ہیں ” ؟ – – میرا تو سر شرم سے جھک گیا تھا
اس کا شوہر بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسکی طرف دیکھ رہا تھا ” اگر یہی مسئلہ تھا تو تم مجھے بتا سکتی تھیں نا ۔ مجھ پر اس قدر ذہنی ٹارچر کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔ ” ؟ شوہر منمنایا ۔۔۔ ” آپ کو کیا لگتا ہے آپ جب میری ماں بہن کے ساتھ ناجائز رشتے جوڑتے ہیں تو میں خوش ہوتی ہوں ۔۔ ؟ ۔ ۔ اتنے سالوں سے آپکا کیا گیا یہ ذہنی تشدد برداشت کر رہی ہوں اس کا کون حساب دے گا
بیوی کا پارہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا ۔۔ خیر جیسے تیسے منت سماجت کر کے سمجھا بجھا کے انگی صلح کروائی ۔ میرے موکل نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اب بھی اپنی بیوی کو گالی نہیں دے گا اور پھر وہ دونوں چلے گئے ۔۔۔ میں کافی دیر تک وہیں چیمبر میں سوچ بچار کرتا رہا کہ گالیاں تو میں نے بھی اس خاتون کو اس کے پہلے جواب پر دل ہی دل میں بہت دی تھیں تو شاید میں بھی نامرد ہوں اور شاید ہمارا معاشر و نامردوں سے بھرا پڑا ہے