استاد نے باقی ساری لڑکیوں کو چھٹی دے دی لیکن سمیرا سے کہنے لگا تم مزید آدھا گھنٹہ یہاں

سمیرا کو سبق یاد نہیں ان میری دوست میں ایک مدرسے میں پڑھنے جاتی تھی جہاں میرے جیسی بہت سی لڑکیاں اور لڑکے پڑھتے تھے ۔ صبح سات سے آٹھ اور شام کو چار سے چھ بجے تک استاد ہم کو پڑھاتا تھا ۔ ہمارا استاد بہت ہی سخت مزاج تھا ۔ وہ چھوٹی چھوٹی غلطی پر مار کر چڑی اتار دیتا تھا ۔ تو اس کو بہت مار پڑی ۔ کے مارے مدرسے جانے سے انکار کر دیا ۔
میں نے اس کو سمجھایا اور دلاسہ دیا تو وہ میرے ساتھ دوبارہ جانے پر مان گئی لیکن ڈر کی وجہ سے اس کو سبق بھول چکا تھا ۔ جب سارے بچے اپنا سبق سنا چکے تو آخر میںاستاد نے سمیرا کو بلایا ۔ وہ بے چاری بری طرح پھنس گئی ۔ اس کو کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔ لیکن اس دفعہ استاد نے اس کو مارنے کی بجاۓ پیار سے سمجھانا شروع کر دیا ۔ اور کہنے لگا کہ جب سب بچے چھٹی کر جائیں تو تم آدھا گھنٹہ مزید رک جاناد تم کو اچھی طرح سبق یاد کرا دوں گا ۔ استاد کا نرم رویہ دیکھ کر سمیرا خوش ہو گئی ۔ پھر چھٹی کے وقت ہم سب بچے گھر چلے گئے لیکن سمیرا مدرسے میں ہی رک گئی ۔ اگلے دن جب سمیرا در سے آئی تو اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ خاموش خاموش سی لگ رہی تھی ۔ میرے بار بار پوچھنے پر بھی اس نے کچھ نہیں بتایا ۔
پھر یہ روز کامعمول بن گیا ۔ استاد روزانہ چھٹی کے بعد سمیرا کو مدرسے میں روک لیتا اور باقی بچوں سے آدھا گھنٹہ بعد اس کو چھٹی دے دیتا ۔ مجھے شک ہو رہا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے لیکن میں خود چونکہ سات آٹھ سال کی تھی اس لیے مجھے کسی چیز کے بارے میں معلوم نہیں تھا ۔ ایک دن ہم مدرسے سے چھٹی کر کے گھر واپس آئے تو اس دن بھی سمیرا کو حسب معمول استاد نے مدرسے میں روکا ہوا تھا ۔ پھر جیسے ہی میں محلے میں پہنچی تو سمیرا کی امی نے مجھے گلی میں روک لیا اور کہنے لگی کہ جاؤ سمیرا کو بلا کر لاؤ گھر میں مہمان آۓ ہیں ۔ میں الٹے پیروںدوبارہ مدر سے چلی گئی ۔ جس کمرے میں ہم پڑھتے تھے وہاں نہ تو سمیرا تھی اور نہ ہی استاد تھا ، میں ڈھونڈتی ہوئی آگے ایک سٹور میں گئی تو آگے کا منظر دیکھ کر میری چیخ نکل گئی ۔ استاد نے سمیرا کے کپڑے اتارے ہوئے تھے اور اس سے بد فعلی کر رہا تھا ۔ مجھے دیکھ کر وہ جلدی سے کپڑے درست کرنے لگا ۔ سمیرا تو بس روۓ جا رہی تھی اپنی سہیلی کی حالت دیکھ کر مجھ میں ایک دم ہمت آ گئی ۔
میں نے سمیرا کو وہاں سے اٹھایا ۔ اس نے جب کپڑے ٹھیک کیے توجیسے ہی میں اس کو بازو سے پکڑ کر گھر کی طرف جانے لگی تو استاد نے ہمارا راستہ روک لیا اور کہنے لگا کہ اگر کسی کو کچھ بتایا تو تم کو اتنی مار پڑے گی کہ ساری زندگی یاد رکھو گی ۔ لیکن میں بالکل نہیں ڈری آخر کار میں سمیرا کو لیے گھر پہنچ گئی اور اس کی ماں کو آنکھوں دیکھا سب کچھ سچ سچ بتا ڈالا ۔ وہ میری بات سن کر پریشان ہو گئی پھر اس نے سب کچھ سمیرا کے ابو کو بتا دیا ۔ اس کے اگلے دن سمیرا تو مدر سے نہیں آئی لیکن جب میں مدر سے پہنچی تو پتہ چلا کہ استاد رات کو ہی کسی کو کچھ بتاۓ بغیر گھر چھوڑ کر کہیں چلا گیا ہے ۔ وہاستاد کے روپ میں ایک درندہ تھا جو معصوم طالب علم بچیوں سے بد کاری کرتا تھا ۔ میں آج بھی اس واقعہ کو سوچتی ہوں تو لرز جاتی ہوں ۔ اگر اس دن ہمت کر کے میں ساری بات سمیرا کی امی کو نہ بتاتی تو پتہ نہیں کب تک معصوم سمیرا کو ظلم سہنا پڑتا ۔ اس طرح کے واقعات آج بھی عام ہیں جو روزانہ سننے میں آتے ہیں ۔