Urdu News

All about islamic and Urdu Stories

مجھے ایک گارڈ کی اشد ضرورت تھی۔ میں نے اسلم کو رکھ لیا۔

مجھے ایک گارڈ کی اشد ضرورت تھی۔ میں نے اسلم کو رکھ لیا۔

ضرورت تھی میں نے دکان کے باہر بور ڈلگادیا گارڈ کی ضرورت ہے اسلم میرے پاس آیا مجھے لگا کہ کوئی گاہک ہے۔ میں نے اسے رکھ لیا ایک دن وہ دکان پر مٹھائی لے کر آیاوہ بہت خوش تھا

 

شہر کے حالات کے پیش نظر مجھے ایک گارڈ کی اشد

 

وہ اور زیادہ لگن سے کام کرنے لگاوہ آج چھٹی پر تھا۔ اس کی بہن کی شادی تھی میں اس کے گھر گیا۔ اس کی اور اس کے باپ کی برسوں کی کمائی عزت مٹی میں مل گئی تھی

 

اس کی بہن۔۔۔۔۔

 

اسلم کو جب میں نے گارڈ کی نوکری پر رکھا تھا مجھے بہت فکر تھی کہ آیادہ اس کام کو صحیح طور پر پورا کر بھی پائے گایا نہیں۔ میری سنار کی دکان تھی۔ شہر کے حالات کے پیش نظر مجھے ایک گارڈ کی اشد ضرورت تھی میں نے دکان کے باہر بور ڈلگادیا گاڑی کی ضرورت ہے۔ کئی لوگ آئے مگر میرے دل کو کوئی نہ بھایا

 

کام بڑی جان جوکھم کا تھا۔ اور ایمانداری بھی کڑی در کار تھی۔ اسلم میرے پاس دکان بند کرنے کے وقت آیا۔ مجھے لگا کہ کوئی گاہک ہے اسکے حلیے سے بالکل نہیں لگتا تھا کہ وہ گارڈ کی نوکری کرنے کے لیے آیا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلا اس نے گریجویشن کر رکھا ہے عمر بھی تیس کے لگ بھگ تھی بے روزگاری سے تنگ آکر

 

وہ یہاں آیا تھا۔ مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔ اس نے بتا یا وہ نوکری کی تلاش میں ہر جگہ کی خاک چھان چکا ہے مگر دور اتنا برا ہے کہ کوئی حال نہیں۔ میں نے اسے فوراپنی کہا کل سے نوکری پر آجاؤ مجھے اس سے دلی ہمدردی تھی میں نے بھی اپنی جوانی میں گھر پر تعلیم اور نوکری کا بڑا شور ڈالا تھا۔ مگر ڈھنگ کی نوکری نہ ملنے

 

کی وجہ سے باپ کے کاروبار کو سنبھالنا پڑا مگر بعد میں مجھے فکر بھی ہوئی۔ کہ وہ کمزور سابندہ رکھ والی بھی کر پائے گا یا نہیں ؟ اگلے دن وہ دکان کھولنے سے پہلے موجود تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے کام نے مجھے بہت متاثر کیا۔ وہ جس انداز سے اپنا کام انجام دیتا مجھے کبھی کبھی

 

حیرت ہوتی نہ بیٹھنا، دھوپ، گرمی، برسات،

 

کبھی ایک چھٹی بھی نہ کرتا تھا۔ ایک بار میں نے کہا کہ چھٹی بھی کر لیا کرو، تو کہنے لگا اتوار کی چھٹی تو ہوتی ہے کافی ہے بس۔ ایک دن وہ دکان پر مٹھائی لے کر آیا اس دن وہ بہت خوش تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیٹی ہوئی ہے میں نے اس دن کے بعد اس میں بہت تبدیلی دیکھی۔ وہ اور زیادہ لگن سے کام کرنے لگا اب وہ

 

دکان کے اندر کے بھی کئی کام نپٹادیتا۔ دو سال ہونے کو آئے تھے۔ اس نے تنخواہ بڑھانے کا بھی نہ کہا تھا مجھے بڑی حیرت ہوئی وہ عجیب ہی صابر بندہ تھا۔ ایک کچی آبادی میں رہتا تھا ماں، باپ، بیوی، بچی ، بہن تھے گھر میں اکیلے کمانے والا تھا باپ کی پینشن آتی تھی۔ ایک دن اس نے بتایا کہ وہ اگلے ہفتے چھٹی کرے گا۔

 

مجھے بہت حیرت ہوئی دو سال میں پہلی بار چھٹی مانگی تھی۔ میں نے خوشی خوشی ہاں کر دی۔اس کی بہن کی شادی تھی اس نے بہت اصرار سے مجھے بھی بلایا تھا۔ میں نے حامی بھر لی۔ مگر میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ میں ویسے بھی ملازموں کو ایک حد میں رکھنے کا قائل تھا مگر ہوا کچھ یوں کے جس دن اسے

 

گیا اس کی بہن کی شادی بھی تھی کہیں اسی نے تو ۔۔۔۔۔ بس اس سے آگے مجھے سوچانہ گیا۔ آخری بار واقعی وہی تسلی کرتا تھا بند کرنے سے پہلے۔ دکان میں لگا کیمرہ چیک کرنے کا خیال آیا مگر وہ بھی توڑا جا چکا تھا۔ دلاور جو دکان کا سب سے پر انا ملازم تھا اس نے بتایا کہ اسلم کل کافی دیر اندر ہی پھنسا رہ گیا تھا اور ہم باہر

 

شٹر گرانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہونہ ہو یہ اسی کا کام ہے۔ پوری سنار مارکیٹ میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ قیصر بھائی کی دکان میں چوری ہو گئی۔ وہ بھی انکے ہی گارڈنے کی۔۔۔ بس پھر کیا تھا پولیس کی کاروائی شروع ہو گئی اب تو میرا بھی شک اس پر تھا۔ پولیس نے اس کو اس کی بہن کی شادی کے دن گرفتار

 

کر لیا۔ تفتیش کی غرض سے میر ادل بڑاد کھا ہوا تھا۔ میں نے اس پر کتنا بھروسہ کیا تھا، اور وہ کیا نکلا۔ دو دن بعد پولیس کی تفتیش کا نتیجہ سامنے آگیا۔ میں نے اس کے پیچھے بڑی بھاری رقم دی تھی مگر جو نتیجہ آیادہ لرزادینے والا تھا اسلم بے قصور تھا۔ اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ اس رات دکان بند ہو جانے کے دو گھنٹے بعد چوری ہوئی

 

تھی۔ اور کرنے ولا ور تھا۔ اسی لیے وہ اسلم پر سارا الزام ڈال رہا تھا۔ اس نے اسی دن کا انتخاب کیا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ شک اسلم پر ہی جائے گا۔ مگر وہ غلطی کر گیا۔ اور پکڑا گیا۔ اسلم رہا ہو گیا۔ مگر میں ساری زندگی کے لیے ضمیر کی عدالت میں قید ہو گیا۔ میں معافی مانگنے اس کے گھر گیا تو وہ ٹوٹے شکستہ انسان کی عملی

 

تصویر بنا تھا۔ اس کی اور اس کے باپ کی برسوں کی کمائی عزت مٹی میں مل گئی تھی۔ اس کی بہن کی شادی ٹوٹ چکی تھی ۔ ماں باپ غم سے نڈھال تھے۔ میں نے اس کے اور اس کے ماں باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔ مجھے غلط فہمی ہو گئی تھی۔ میں ضمیر کے بوجھ سے آزادی چاہتا تھا۔ وہ خاموش رہا۔اس کے ماں باپ بھی

 

خاموش رہے میں لوٹ آیا۔ ان کی خاموشی سے مجھے بے پناہ خوف آیا۔ مگر میں بھی کیا کرتا؟ دکان میں چوری معمولی بات تو نہ تھی نا۔ مارکیٹوں میں کاروائی یوں ہی ہوتی ہے۔ چھوٹے لوگوں کا کیا اعتبار بس یہی سوچ کر ہی تو میں نے کارروائی کی تھی۔ سارے اشارے اسی کی طرف تھے۔ میں کیا کرتا میں خود کو تسلی دیتا معصوم

 

ثابت کرتا گھر لوٹ گیا۔ چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک رات مجھے خبر ملی کہ دکان میں آگ لگ گئی۔ سب جل کے خاک ہو گیا۔ میں جانتا تھا کہ یہ سب دلاور نے کروایا ہو گا۔ وہ جیل سے رہا ہو گیا تھا۔ میں نے گاڑی نکالی مجھے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروانی تھی مگر راستہ میں تیز رفتاری کی وجہ سے میرا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔

 

میری دونوں ٹانگیں ضائع ہو گئیں ابھی میں اس غم سے نکل ہی نہ پایا تھا کہ میری چھوٹی بیٹی کے ہونے والے سسرال رشتہ ختم کر کے چلے گئے۔ یقینا اب انہیں مجھے سے کچھ نہ ملنے کی امید نے مایوس کیا ہو گا۔ سنار کی دکان نہیں رہی تھی اور نہ اب وہ کمانے کے لائق تھا۔ بس اب میں سوچتا ہوں کہ یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوا؟

 

میں نے تو کبھی کسی کا برا نہ گیا۔ میری بیٹی کو لا کبھی لوگ ملے۔ میری دکان پر بے ایمان ملازم نے چوری کی پھر آگ لگوادی۔ صرف میرے ساتھ ہی برا ہوا۔ مگر کیوں۔۔۔۔ انسان اپنا کیا ہمیشہ بھول جاتا ہے ہر کسی کو احساس نہیں ہوتا، کے اس نے بھی کسی کے ساتھ غلط کیا ہے۔وہ بس خود کو ہی مظلوم ثابت کرنے کے پیچھے لگارہتا ہے۔

 

دوستو ! اپنی کہانی میں کوئی ولن نہیں ہوتا۔ ضمیر کو دینے کو تاویلیں بہت۔ مگر اللہ سب دیکھتا ہے۔۔۔ اور وہ اپنے بندوں کے ساتھ برا ہونے نہیں دیتا سب یادر کھتا ہے۔۔ اور بہتر انصاف کرنے والا ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *