میرے شوہر نے ایک دن اچانک ہی غصے میں مجھے طلاق دے دی

میرے شوہر کو چھوٹی سے چھوٹی بات پر جلدی غصہ آ جایا کرتا تھا اور ان کو اپنا غصہ قابو کرنا نہیں آتا تھا اچانک ہی وہ کسی بھی معمولی سی بات پر غصے میں آ جاتے اور سارے گھر کا سامان اٹھا کر پھینکنے لگتے۔ کئی دفعہ میں نے انہیں محبت سے سمجھایا تھا کہ اتنا غصہ ٹھیک نہیں ہوتا لیکن وہ تو کسی صورت سمجھ ہی نہیں پاتے تھے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھ پر غصہ ہو جایا کرتے۔۔۔ ہماری شادی کو ایک سال کا عرصہ ہی گزرا تھا اور اس ایک سال میں میں نے ان کے غصے کی انتہا کو دیکھ لیا تھا لیکن مجھے ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن وہ غصے میں ہر حد پار کر جائیں گے اور ہمارے رشتے کو ہی نشانہ بنا بیٹھیں گے۔ ایک معمولی سی بات کو لے کر میرے شوہر نے مجھ سے اپنا ہر تعلق ختم کر لیا تھا لیکن جیسے ہی کچھ گھنٹوں بعد ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ میرے قدموں میں گر کئے اور معافیاں مانگنے لگے ۔۔ لیکن اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔۔۔
میرے شوہر نے صرف وقت پر کھانا نہ تیار ہونے پر اتنا غصہ کیا تھا کہ بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک آپہنچی تھی اور میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تھی۔۔۔ میرا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا میں نے واجد سے اپنی پسند سے شادی کی تھی اور مجھے اس بات کا بلکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ دو لمحوں میں ہی ہمارے رشتے کو نیست و نابود کر دیں گے میں تو ان کی محبت کے خاطر اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر چلی آئی تھی اور اب میرے لئے واپسی کا کوئی راستہ بھی ممکن نہیں تھا لیکن واجد جب کے رویے نے تو مجھ پر زندگی تنگ کر دی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے کہ جب ہی میرے شوہر نے اس مسئلے کا ایک حل نکالا اور جسے سن کر میں حیران رہ گئی۔۔۔ اس گھر میں میرے اور میرے شوہر کے علاوہ ان کا ایک بھانجا رہتا تھا جس کے سر پر ماں باپ کا سایہ نہیں تھا اور واجد نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔
وہ تیرا سالہ ایک سمجھدار بچہ تھا۔ جس کا نام شایان تھا۔ واجد مجھ سے کہنے لگے کہ انعم تم اسی گھر میں رہ کر خاموشی سے اپنی عدت پوری کر لو پھر میں تمہارا نکاح ہوا جسے کروادوں گا اور تم حلالہ کر کے پھر میرے پاس چلی آتا۔۔۔ واجد کی بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے میں کیسے ایک 13 سالہ بچے سے نکاح کر سکتی ہیں جب کہ میری اپنی عمر میں برس کی تھی۔ لیکن وہ آج میرے قدموں میں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ وہ میرے بغیر کسی صورت نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا یا کہا وہ غصے میں تھا پہلے تو وہ اس طلاق کو طلاق ماننے کے لیے راضی ہی نہ تھے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے شدید غصے کے عالم میں یہ لفظ ادا کیے ہیں لیکن میں اپنی بات پر قائم رہی کہ طلاق تو طلاق ہوتی ہے۔ غصے میں دی گئی ہو یا مذاق میں وہ قائم ہو جاتی ہے اور اب میں ان کے نکاح میں نہیں رہی ہوں۔۔۔۔
واجد نے مجھ سے کہا کہ تم اسی گھر میں رہ کر اپنی عدت پوری کر لو اور میں پوری طرح تمہارا خرچہ اٹھاؤں گا اور تمہیں کسی چیز کی کمی نہ ہونے دوں گا اور اس کے بعد خود شایان سے تمہارا نکاح کروادوں گا شادی کے اگلے دن ہی تم شایان سے طلاق لے لینا۔ اسے میں نے پال پوس کر بڑا کیا ہے مجھے یقین ہے کہ وہ فوراً تھے طلاق دے گا۔۔۔ میرے پاس واجد کی بات ماننے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ میں اپنی ساری کشتیاں جلا کر واجد کے در پر آئی تھی۔ میں اور واجد ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ اور میں اسکول آتے جاتے واجد کو دیکھا کرتی تھی اور مجھے واجد سے محبت ہو گئی تھی۔ جب واجد نے میرے لیے رشتہ بھیجا تو میرے گھر والوں نے صاف انکار کر دیا کیونکہ واجد کا غصہ سارے جہاں میں ہی بہت مشہور تھا واجد ہمیشہ ہی غصے میں اپنا آپا کھو بیٹھے تھے۔ غصے میں آکر محلے میں مار پیٹ اور لڑائی جھگڑا ان کے لیے معمول کی بات تھی۔۔۔
اور جب مجھے اندازہ ہوا کہ میرے گھر والے کسی بھی طرح مجھے واجد کے ساتھ رخصت نہیں کریں گے تو میں نے واجد سے چپکے چپکے ملاقاتیں شروع کر دیں۔ واجد نے ان ملاقاتوں میں مجھے یقین دلایا تھا کہ وہ مجھ پر کبھی غصہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ ہو گی۔۔۔ میں اس وقت جوانی کی دہلیز پر تھی اور جذبات کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ ہر ملاقات پر جب واجد مجھے ہاتھ لگاتے اور محبت سے مجھے چومتے تو میں اندر تک سرشار ہو جاتی اور واجد نے مجھے اپنے لیے اتنا بے تاب کر دیا تھا کہ میرے پاس اب اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف جاکر واجد سے شادی کرلوں۔ میں کسی بھی طرح واجد اور اپنا من چاہتی تھی چپکے چپکے ہونے والی ملاقاتوں نے ہمارے دل میں جذبات کا ایسا طوفان پیدا کر دیا تھا
جسے روکنا یا برداشت کرنا ہمارے بس میں نہیں تھا۔۔۔ کبھی کبھی ہماری ملاقات حد سے زیادہ تجاوز کر جاتی اور میں سب کچھ بھول کر واجد کی ہو جاتی۔ واجد نے اپنے ایک دوست کا گھر ہماری ملاقات کے لیے طے کر رکھا تھا جہاں اس کا دوست اکیلے رہا کرتا تھا میں اور واجد وہاں ملتے اور اپنی پیاس کو بجھانے کی کوشش کرتے لیکن جلد ہی ہماری ملاقات کے لمحے ختم ہو جاتے اور ہم دونوں سیر اب بھی نہ ہو پاتے۔ کبھی کبھی واجد مجھے سے بہت زیادہ کھلے الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کر کے کہتے کہ وہ اب میرے بغیر اپنے بستر پر بہت بے چینی محسوس کرتے ہیں اور اب وہ کسی بھی طرح میرے ساتھ راتیں گزارنا چاہتے ہیں۔۔ اور اگر میں ان کی نہ ہوئی تو وہ کوئی بھی غلط قدم اٹھا لیں گے۔۔ میں واجد کے اس جنون کو اپنے لیے محبت کجھتی رہی اور مجھے اندازہ ہی نہ ہوا کہ یہ جنون تو ان کی فطرت کا حصہ ہے۔۔۔ میں ان کے محبت بھرے جذبات سے اس قدر متاثر ہو گئی تھی کہ میں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اٹھارہ سال کی عمر میں ان کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لی تھی اور ہم دونوں وہ محلہ چھوڑ کر دور چلے آئے تھے ۔۔۔
واجد کے گھر میں صرف ان کی بوڑھی ماں اور ان کا بھا نجارھ گیا تھا کیونکہ ان کی بہن اور بہنوئی کا بہت پہلے انتقال ہو گیا تھا پھر کچھ عرصے بعد ہمیں اطلاع ملی کہ واجد کی ماں بھی چل بسی ہیں تو واجد اپنے بھانجے کو ہمارے گھر لے آئے۔۔۔ جب میں اپنا گھر چھوڑ کر واجد کے ساتھ فرار ہوئی تو میری آنکھوں میں بہت سے سپنے تھے اور اس شادی کو لے کر بہت زیادہ ارمان تھے ہم نے ایک کرائے کا گھر لے لیا تھا۔ واجد کی نوکری بہت اچھی تھی اسی لیے ہمیں پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ واجد عمر میں مجھے سے بارہ سال بڑے تھے اور شادی کے وقت ان کی عمر تیس سال تھی ان کے غصے کی وجہ سے کوئی بھی اپنی بیٹی کو ان سے بیاہنا نہیں چاہتا تھا اور جب میں انہیں میسر آئی تو انہوں نے جذبات میں آکر نہ صرف میرے ساتھ بہت سا گزارا کر کے مجھے لے کر فرار ہو گئے۔۔۔ شادی کی رات مجھے ان کے جنون کا صحیح طرح سے اندازہ ہو گیا جب وہ دو گھنٹے تک مجھے مستقل محبت دینے کے باوجود بھی پیچھے نہیں ہے اور ان کی پیاس نہ بھی۔۔۔ میں بہت زیادہ تھک چکی تھی اس لیے میں نے واجد سے کہا کہ میں اب تھک گئی ہوں اور میں سونا چاہتی ہوں لیکن وہ جنون کی انتہا پر پہنچکے
میں پوری اور میرے ساتھ زبر دستی کرنے لگے میں پوری رات واجد کی زبر دستی کو برداشت کرتی رہی لیکن میں اسے تب بھی ان کی محبت ہی سمجھ رہی تھی۔ واجد نے جو مجھ پر غصہ نہ کرنے کی باتیں کی تھیں وہ سب بھی محض باتیں ہی رہ گئی تھی وقت کے ساتھ ساتھ ان کا غصہ پھر اُن پر غالب آگیا تھا اور وہ میرے ساتھ زور زبر دستی کرنے کے علاوہ مجھ پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ بھی کرتے اور کبھی کبھی تو مار پیٹ پر اتر آتے۔ میں یہ سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور ہو چکی تھی کیونکہ میرے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔ لیکن جس دن واجد مجھ سے محبت کرتے اس دن اس قدر محبت کرتے کہ میں ان کی پچھلی تمام باتوں کو اور تشدد کو بھول جاتی اور ایک دفعہ پھر ان کی محبت میں دیوانی ہونے لگتی۔۔۔ زندگی اسی طرح نشیب و فراز پر تھی کہ جب ہمیں پتہ چلا کہ واجد کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور واجد کا یتیم بھانجا اکیلا رہ گیا ہے۔ واجد خود جا کر اپنے بھانجے شایان کو ہمارے ہی گھر لے آئے اس وقت وہ ایک بارہ سال کا بچہ تھا۔۔۔
شایان بالکل میرے چھوٹے بھائی کے جیسا تھا اسی لیے میں نے اسے دیکھتے ہی فورا اپنے سینے سے لگا لیا تھا اور اسے بہت زیادہ محبت دینے لگی تھی۔ میں ہر وقت اس کا خیال رکھتی اور اس کے ساتھ ساتھ رہتی تھی۔ شایان کو پڑھانے کی ذمہ داری بھی میں نے لے لی تھی کیونکہ میرے پاس گھر کے کچھ ہی تھوڑے بہت کام ہوا کرتے تھے اور باقی وقت میں فارغ رہا کرتی تھی۔ شایان کے گھر آنے سے میر ادل لگ گیا تھا اور مجھے واجد کے غصے سے بھی نجات حاصل ہونے لگی تھی کیونکہ شایان کی موجودگی میں واجد مجھے پر مار پیٹ نہ کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ ہو جانا ابھی بھی ان کا معمول تھا۔ شایان بھی بچپن سے واجد کے اس رویے سے واقف تھا اسی لیے یہ بات اس کے لئے بھی نئی نہیں تھی۔ اکثر ہیں واجد کی غیر موجودگی میں وہ مذاق مذاق میں واجد کو برا بھلا کہہ دیتا۔ اور میں اس کی بات سن کر مسکرا اٹھتی۔ وہ مجھے کہتا کہ انہم آپی مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا کہ ماموں آپ کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھتے ہیں جب کہ آپ اتنی اچھی ہیں۔۔
میں مسکر اکر شایان کی بات کو ٹال جاتی لیکن سچ تو یہ تھا کہ مجھے سے بھی واجد کا ایسا سلوک اب برداشت نہیں ہوتا تھا محبت کے جو حسین سپنے سجائے میں واجد کے ساتھ آئی تھی واجد نے ایک ایک کر کے ان تمام سپنوں کو توڑ دیا تھا۔۔۔ کئی دفعہ میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں اپنے گھر واپس لوٹ جاؤ لیکن پھر اتنی ہمت نہ ہوئی کہ دوبارہ اپنے ماں باپ کا سامنا کر پاتی۔ ایک دن واجد دفتر سے بہت غصے میں گھر لوٹے تھے اور اتفاق سے مجھے کھانا پکانے میں دیر ہو گئی تھی کیوں کہ آج صبح سے ہی علاقے میں گیس کی بندش تھی۔۔۔ واجد نے میری بات سنیں بنا ہی غصے میں سارے گھر کا سامان دیکھنا شروع کر دیا اور جب میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور بتانا چاہا کہ صبح سے گیس نہیں تھی تو میری بات سنے بغیر ہی انہوں نے مجھے طلاق دے دی۔۔ میں اپنی جگہ ہکا بکا کھڑی رہ گئی تھی اور واجد کو اس وقت بھی بالکل اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ مجھ پر کیسی قیامت ڈھا کئے ہیں۔۔۔
ہمیشہ کی طرح ہی کچھ ہی گھنٹوں میں ان کا غصہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ ہم دونوں کے ساتھ کیسا ظلم کر چکے ہیں وہ میرے قدموں میں بیٹھ کر زور زور سے رونے لگے اور یہی کہتے رہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ غصے میں کہا تھا اور اس کا کوئی مطلب نہیں تھا۔۔ میں اس بات کو کسی صورت نہیں مان سکتی تھی میرے نزدیک طلاق ہو چکی تھی ۔ جب واجد نے دیکھا کہ میں ان کے ساتھ اب کسی بھی طرح رہنے کو راضی نہیں ہوں تو انہوں نے ایک درمیانی راستہ نکالا اور کہنے لگے کہ میں اس گھر میں رہ کر اپنی عدت کے دن گزار لوں اور پھر شایان سے شادی کر کے دوبارہ ان کے نکاح میں چلی آؤں۔ واجد کی بات سن کر میری جان نکل گئی کہ وہ اپنی غرض کے خاطر اپنے تیر اسالہ بھانجے سے میرا انکاح کروانا چاہتے ہیں۔۔۔ واجد نے کہا کہ ایک یہی راستہ ہے جس کے ذریعے سے ہم دونوں دوبارہ ایک ہو سکتے ہیں۔ میرے پاس واجد کی بات ماننے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا اس لیے میں اس گھر میں رہ کر عدت پوری کرنے لگی فی الحال ہم نے یہ بات شایان سے چھپالی تھی۔
میں رات کو اسٹور روم میں چلی جاتی اور رات وہیں گزارتی۔ دن بھر تو واجد گھر پر موجود ہی نہ ہوتے تھے شروع شروع میں تو شایان بہت حیران ہوا کہ میں اسٹور روم میں کیوں سونے لگی ہوں لیکن پھر میں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ اس کے ماموں مجھ سے ناراض ہیں اور وہ مجھے ابھی اپنے کمرے میں نہیں رکھنا چاہتے۔۔۔ دن بہت تیزی سے پر لگا کر اڑا رہے تھے اور واجد سے میری جدائی برداشت نہیں ہو رہی تھی کئی دفعہ انھوں نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن میں ہمیشہ منہ پھیر لیتی۔ اس وقت وہ ایک نامحرم کے سوا اور کچھ نہ تھے۔ شایان نے بھی انٹرنیٹ کے ذریعے کوئی نوکری ڈھونڈلی تھی اور وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ فارغ وقت میں انٹرنیٹ پر ہی کوئی کام کرنے میں مصروف تھا۔ میں جب بھی اس سے پوچھتی کہ کہیں اس وقت کام کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تو وہ مسکرا کر کہتا کہ وہ ہمیشہ تو میرے اور ماموں کے سہارے زندگی نہیں گزار سکتا ہے اور وہ جلد ہی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے۔۔
مجھے شایان کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی وہ ایک سلجھا ہوا اور سمجھدار بچا تھا۔۔۔ جس دن میری عدت ختم ہوئی اس دن واجد نے شایان کو بٹھا کر بہت پیار محبت سے ساری بات بتائی جسے سن کر شایان سکتے میں آگیا اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ واجد نے مجھے طلاق دی ہے۔۔۔ لیکن پھر اسے سمجھ آگئی کہ میں اتنے عرصے سے اسٹور روم میں راتیں کیوں گزار رہی ہوں اور جب واجد نے شایان کو یہ بتایا کہ وہ اس سے کیا چاہتے ہیں تو شایان بالکل ہی ہکا بکا رہ گیا اور کہنے لگا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنی مامی سے نکاح کرلوں۔ واجد نے کہا کہ حلالہ کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ تم انعم کو ایک رات اپنے نکاح میں رکھ لو پھر بھلے تم اسے اگلے ہی دن چھوڑ دینا یہ بات ہم تینوں کے علاوہ اور کسی کو معلوم نہ ہو گی اور یوں ہمارا بھرم رہ جائے گا اور ایک دفعہ پھر انعم میرے نکاح میں آجائے گی۔۔۔ شایان نے ایک نگاہ مجھ پر ڈالی جو ان دونوں کی گفتگو کے درمیان خاموش بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ شایان کو معلوم تھا کہ میرے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے اور میں ایک بے آسرا عورت ہوں اگر شایان اس نکاح کے لیے راضی نہ ہو گا تو میں در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے مجبور ہو جاؤں گی۔۔۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد شایان نے حامی بھر لی اور واجد نے اسی روز قاضی کو بلا کر خاموشی سے گھر میں ہی ہمارا نکاح کروادیا
جس طرح ہم دونوں کی طلاق کی خبر کسی کو نہ ہوئی تھی ویسے ہی میرے اور شایان کے نکاح سے متعلق بھی ہم نے کسی کو اطلاع نہیں دی تھی۔ یوں بھی ہم تینوں کا ہمارے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔۔۔ میرے اور شایان کے نکاح کے بعد واجد یہ کہہ کر گھر سے چلے کئے کہ وہ صبح میں واپس آئیں گے اور ان کے آنے سے پہلے پہلے شایان مجھے طلاق دے دے گا۔ میں تھکی ہاری سی اسٹور روم میں بیٹھی تھی جب شایان میرے پاس چلا آیا اور کہنے لگا کہ آپ میرے کمرے میں چل کر آرام سے سو جائیں۔ پہلے تو میں شایان کو منع کرتی رہی لیکن جب وہ نہ مانا تو میں اس کے ساتھ اسے کمرے میں چلی گئی اور آنکھیں بند کر کے سونے کے لئے لیٹ گئی۔۔۔ ابھی مجھے لیتے تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب مجھے اپنے اوپر کسی کے ہاتھ کا احساس ہوا یقینا وہ شایان ہی تھا میں نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا تو وہ میرے ساتھ ہی لیٹا ہوا تھا۔
اکثر ہی میں اور شایان ایک ساتھ لیٹ کر باتیں کرتے تھے لیکن آج ہم دونوں کا رشتہ بدل چکا تھا اسی لئے میں اس کے ساتھ ایک ہی بستر پر لیٹ کر بہت عجیب محسوس کر رہی تھی۔۔۔ شایان دھیرے دھیرے میرے جسم پر اپنی انگلیاں چلانے لگا تو میں گھبراگئی اور اٹھ بیٹھی۔ لیکن شایان نے میر اہاتھ پکڑ کر مجھے دوبارہ اپنے برابر میں لٹا لیا اور آہستہ سے میرے قریب ہو گیا۔ اس کی گرم گرم سانسیں مجھے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں اور میری سانسیں رکنے لگی تھی۔ شایان دھیمی دھیمی میرے کان میں کہہ رہا تھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں۔۔۔ اس وقت مجھے شایان تیرہ سال کا بچہ نہیں بلکہ ایک بھر پور مرد محسوس ہو رہا تھا شایان کا قد کاٹھ بہت اچھا تھا اور وہ اپنی عمر سے بڑا دکھائی دیتا تھا۔ اور ماں باپ کی غیر موجودگی نے اسے وقت سے پہلے ہی بہت حساس اور سنجیدہ بھی کر دیا تھا۔ شایان کے سوال پر میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ کہنے لگا کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں صبح اٹھتے ہی آپ کو طلاق دے دوں۔ نہ جانے کیوں شایان کی باتوں پر میری آنکھیں بھیگنے لگیں تھیں۔
میں نے کوئی جواب نہ دیا تھا۔ شایان نے مجھے اپنے گلے سے لگالیا اور دھیرے دھیرے میری آنکھوں کو چومنے لگا اس کے دونوں ہاتھ میرے جسم پر رینگ رہے تھے اور میں اپنا آپ کھوتی جارہی تھی۔۔ میرے اور شایان کے در میان آہستہ آہستہ دوریاں مٹتی چلی گئی اور میں اس کے ساتھ تعلق قائم کر بیٹھی۔۔۔ مجھے ہر گز بھی ایسا محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ میں ایک تیر اسال کے بچے کے ساتھ ہوں شایان ایک بھر پور مرد تھا جس نے میرے جذبات کو ایسی تسکین پہنچائی تھی جو کبھی واجد بھی نہ دے سکے تھے۔۔ واجد عمر میں مجھ سے بہت زیادہ بڑے تھے اس لیے شاید ان کے ساتھ تعلق قائم کر کے مجھے ایسے خوشی محسوس نہ ہوئی تھی جیسی آج کی رات شایان کے ساتھ ہوئی تھی۔ جیسے ہی صبح سورج کی روشنی پھیلی تو میں شایان سے نظریں چرا کر اس کے کمرے سے نکلنے لگی۔ شایان نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روک لیا اور کہنے لگا کہ اس نے میرا ہاتھ چھوڑنے کے لیے نہیں تھاما ہے بلکہ وہ زندگی بھر میر اساتھ نبھانا چاہتا
شایان کی بات نے مجھے چونکا کر رکھ دیا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ وہ واحد کی طرح خود غرض نہیں ہے اور میرے جذبات کا تماشہ نہیں لگانا چاہتا۔ شایان کہہ رہا تھا کہ جس طرح واجد نے غصے میں مجھے طلاق دی ہے وہ دوبارہ بھی یہی سب کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ ان کا اپنے غصے پر کوئی قابو نہیں ہے۔ دراصل وہ ایک ذہنی مریض ہیں۔۔ شایان کہنے لگا کہ وہ میر اساتھ پا کر بہت خوش ہے اور میں اسے ہر لحاظ سے بہت اچھی لگتی ہوں۔ اسی لیے وہ مجھے چھوڑنا نہیں چاہتا ہے۔ اپنی بات پوری کر کے وہ میری آنکھوں میں جھانکنے لگا اسے میرے جواب کا انتظار تھا۔۔ اس سے پہلے کہ میں اسے کوئی جواب دیتی واجد گھر واپس لوٹ آئے تھے اور آتے ہی انہوں نے ہم دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر پہلا سوال یہی کیا تھا کہ شایان نے مجھے طلاق دے دی ہے کیا ؟؟؟ میں نے واجد کی طرف ایک سرد نگاہ ڈالی اور واجد سے کہا کہ میں شایان سے طلاق نہیں لے سکتی۔ میں اور شایان ایک ازدواجی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور ہم دونوں نے کل رات ایک دوسرے کو مکمل کر دیا ہے اور اب ہم ایک ساتھ بہت خوش ہیں۔۔۔
میری بات سن کر واجد شایان کی طرف بڑھے اس سے پہلے کے وہ شایان کو مارتے میں نے انھیں صاف صاف کہہ دیا کہ میں پولیس میں اُن کے خلاف کاروائی کروں گی۔۔۔ شایان کے ساتھ نے مجھے مضبوط بنادیا تھا۔ بھلے ہی وہ تیر اسال کا تھا لیکن اب وہ میراشوہر تھا۔۔۔ میں نے واجد کو آئینہ دکھا دیا اور شایان کے ساتھ اُس گھر کو چھوڑ دیا۔ واجد نے ہم دونوں کو بہت برا بھلا کہا اور بہت ہنگامہ کیا۔ وہ مجھے ہماری محبت یاد دلانے لگے لیکن اب میرے دل میں اُن کے لیے کوئی جذبات نہ تھے۔۔۔ ہم دونوں وہاں سے نکل کئے۔ واجد ا کیلیے رہ کئے تھے ۔ اور کچھ عرصے بعد ہمیں خبر ملی کہ واجد نے اپنے دفتر میں کسی آدمی کا غصے میں قتل کر دیا ہے اور اب وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔۔۔ اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف جاکر میں نے جو قدم اٹھایا تھا اس کی سزا مجھے مل گئی تھی۔۔۔ اب آنے والی زندگی مجھے شایان کے ساتھ گزارنی تھی۔