Urdu News

All about islamic and Urdu Stories

مصر کے جنگل میں ایک شہزادہ تھا۔

مصر کے جنگل میں ایک شہزادہ تھا۔

مصر کے جنگل میں ایک شہزادہ چند بکریاں چراتا اور ان سے حاصل ہونے والے دودھ اور جنگل کے پھلوں یہ گزارہ کرتا۔وہ تھا شہزادہ مگر نہ تو اس میں شاہوں والا غرور تھا اور نہ ہی وہ جاہ وجلال۔ وہ عام انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتا۔ روکھی سوکھی کھاتا بیشتر وقت اپنی رعایا کی خدمت اور خدا کی یاد میں بسر کرتا۔

اس کی نیک چلنی کا پوری ریاست میں چرچا تھا۔ ایسے یہ خصوصیات اپنے رحمدل باپ سے وراثت میں ملی تھیں ایک دن شہزادہ معمول کے مطابق رعایا کے مسائل سننے کے بعد جنگل میں، دنیا سے بے نیاز ، خدا کی یاد میں محو تھا، کہ اس نے دیکھا کہ ایک غریب لکڑ ہارا اپنے گدھے کو ساتھ لئے ہوئے لکڑیاں کاٹ رہا

اور اس سے باتیں بھی کیے جارہا ہے حالانکہ اسے معلوم تھا کہ نہ تو گدھا اس کی بات سن رہا ہے نہ ہی سمجھ رہا ہے اور پھر وہ زار و قطار رونے لگا۔ شہزادہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ لکڑ ہارا روزانہ لکڑیاں کاٹنا، گدھے سے چند باتیں کرتا اور پھر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتا۔ چند روز یہی معاملہ رہا، جب رحمدل شہزادے سے

اس کا رونا دیکھا نہ گیا اور وہ یہ کتھی سلجھانے میں ناکام رہا تو بلا خر درخت کی اوٹ سے باہر آگیا اور لکڑ ہارے سے پوچھا: اے لکڑ ہارے تیرے اس طرح بلک بلک کر رونے کی وجہ کیا ہے؟ غریب بوڑھا، بیدرد انسان سامنے پاکر اور شدت سے رونے لگا اور سیکیوں کے ساتھ اپنی بد بختی کی کہانی سنانے لگا۔ میرا ایک بیٹا تھا،

جسے خدا نے بے تحاشہ دولت سے نوازا تھا ہر طرح

کا عیش اسے میسر تھا، مگر اس دولت کا غرور اس کے تن بدن پر اس قدر حاوی ہو چکا تھا کہ اسے اپنی دولت کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ اپنے غریب رشتہ داروں کو دھکے دیتا، انہیں ذلیل ورسوا کرتا۔ پھر اس کی بربادی کا دن آگیا اور میری دور کی ایک رشتہ دار

دوسری ریاست سے میرے گھر سوالی بن کر آئی، یہ سوچ کر کہ مشکل میں اپنے ہی کام آتے ہیں، وہ بہت غریب تھی اس کی بیٹی کی شادی قریب تھی مگر کوئی انتظام نہ ہو پایا تھا، اسے کچھ رقم کی ضرورت تھی، وہ اللہ کی نیک بندی تھی بیشتر وقت عبادت میں گزارتی تھی مگر میرا بیٹا دولت کے نشے میں اندھا ہو چکا تھا،

اس عورت کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ہماری بربادی شروع ہوئی۔ اسی رات سرخ آندھی چلی بجلی کڑکی اور تیز بارش ہوئی۔ میں اور میرابیٹا اپنے نرم بستر پر میٹھی نیند سورہے تھے ، اور وہ عورت پوری رات ہمارے دروازے سے لگی روتی رہی، شدید طوفان اور رات کے کھنے اندھیرے میں

دوسری ریاست واپس جانا اس کیلئے ممکن نہ تھا، اور وہ ضعیف عورت پوری رات اس طوفان سے مقابلہ کرتی رہی اور میرے بیٹے کو رحم نہ آیا، صبح جب میری آنکھ کھلی تو مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ میرا بیٹا گدھے کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ گھر کا سارا سامان آسمانی بجلی گرنے سے جل کر خاک ہو چکا تھا سب کچھ برباد ہو گیا تھا،

یہ سب ہونے میں میرا قصور یہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو غرور و تکبر کرنے سے نہ روکا، برائی کی طرف بڑھتا ہوا! اسکا کوئی قدم نہ روکا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ میں جنگل سے لکڑیاں کاٹتا ہوں اور اپنے ہی بیٹے پہ لاد کر بیچنے لے جاتا ہوں ، اور اسی سے ہم باپ بیٹے کا گزرا چلتا ہے . یہ سن کر شہزادے کی آنکھیں نم ہو گئیں

اور وہ لکڑ ہارے سے مخاطب ہوا: اے ضعیف انسان ! تو نے بہت ظلم کیا۔ بے شک برائی پر خاموش رہنا اور اسے نہ روکنا، اس کا ساتھ دینے کے مترادف ہے تو نے اپنے بیٹے کو برائی سے نہ روکا، مجھے تیری حالت پر افسوس ہے۔ لکڑ ہارے نے کہا ! اب میں اپنی اُس غریب رشتہ دار کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں۔

اس کی تلاش مجھے رلاتی ہے شاید وہ میری امدد کر سکے وہ مجھے مل جائے میں اس سے معافی مانگوں گا۔ شاید میرے گناہوں کا ازالہ ہو سکے مگر افسوس وہ مجھے کہیں نہیں ملتی۔ یہ کہہ کر لکڑ ہارا رونے لگا۔ شہزادے نے اس کے آنسو پر کھتے ہوئے کہا۔ تو اپنے گناہوں کی

معافی اللہ سے مانگ۔ وہ بہت رحیم ہے،

اگر اس نے تجھے معاف کر دیا تو وہ تجھے اس عورت تک پہنچانے کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور بنادے گا، وہ بہت مہربان ہے، اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا، بوڑھا لگڑ ہارا اسی وقت سجدے میں گر کر بلک بلک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا، اچانک دور سے کسی گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ ایک خوبصورت شہزادی

سفید رنگ کے حسین گھوڑے پر سوار تھی، قریب آکر شہزادے سے مخاطب ہوئی : اے شہزادے آخر یہ کیا ماجرا ہے، شہزادے نے بوڑھے کی رام کہانی شہز دی کو سنادی، شہزادی کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور وہ گھوڑے سے اتری اور لکڑ ہارے سے کہنے لگی میں ہی وہ لڑکی ہوں جس کی ماں تیرے در پر

سوالی بن کر آئی تھی، مگر اے بد بخت تیرے مغرور بیٹے نے اس نیک عورت کی زندگی ہی چھین لی۔ ساری رات تیرے دروازے پر تیز بارش میں طوفان کا مقابلہ کرتی رہی، کہ شاید مجھے رحم آجائے! بالآخر تیز بارش کی ٹھنڈی بوندوں کو وہ بوڑھی جان برداشت نہ کر سکی، اور دنیا سے چلی گئی۔ جب صبح ہوئی۔ تو رحمدل بادشاہ

معمول کے گشت پر تھا اس کا وہاں سے گزر ہوا وہ میری ماں کو جب گھر لایا توماں کی لاش دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ اب میرا سہارا کوئی نہ تھا۔ بادشاہ یہ سب دیکھ کر بہت حیران ہوا بلآخر اس نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا کچھ عرصہ میں اس کے محل میں رہی، اور اس نے مجھے

نیک لڑکی پاکر اپنے بیٹے سے میری شادی کرا دی، شاید یہ میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا، جس نے میری خاطر اپنی جان قربان کر دی۔ اور اس رب نے مجھ غریب کو فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دیا، اور اس نیک شہزادے سے میری شادی کرادی۔ جو اس وقت تیرے سامنے کھڑا ہے، اور تجھے تیرے مغرور بیٹے کے

کرموں نے، عرش سے فرش پر گرا دیا۔ خدا کی قدرت دیکھ کر لکڑ ہارا شر مندگی سے زمین میں گڑھتا جارہا تھا۔ اور رو رو کر شہزادی سے معافی مانگی۔ شہزادی بہت رحم دل تھی۔ لکڑ ہارے کے آنسوؤں سے اس کا دل بھر آیا، اور اس نے اس کو معاف کر دیا۔ خدا کی قدرت لڑکا اس لمحے اپنے روپ میں واپس آگیا،

اور خدا کے حضور سجدے میں گر گیا۔ اور شہزادی سے بھی معافی مانگنے لگا۔ شہزادی نے اسے بھی معاف کر دیا۔ بلآخر دونوں باپ بیٹا اپنی جھونپڑی کی

طرف روانہ ہو گئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *